M Qasim - کمہار ہنر

 To be checked 
Revised

گروپ نمبر:11 
 نام:    محمدقاسم   
رول نمبر:   (2k17/mc/65)      
ٹوپک:     مٹی کے برتن اور کمہار زوال پزیر ہنر 

ماہرین کی رائے اور آثار قدیمہ کی رپورٹس:
                    انسانی تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ انسان اپنے ارد گرد کے چیزوں کو اپنی ضروریات کے مطابق استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ مٹی سے بنے برتن انسانی تاریخ کا شاخسانہ ہیں۔ سٹون ایج میں زندگی گزار نے کے بعد بھی اپنے خوبصورت واقعات کو جذب کرنا بھی ایک مہارت ہے جو انسان کو قدرت نے دی ہے۔ قلم،کیمرہ یا ویڈیو گرافی نہ ہونے کے باوجود بھی اسارے قدیمہ کے زخایر ہمیں ملتے ہیں۔
              صادق حسن جو کہ سماجی رہنما ہیں ان کے مطابق پوری دنیا میں آرٹسٹ کمیونٹی کو پروموٹ کیا جاتا ہے اور انہیں اعزازی طور پر عزت بھی دی جاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ آثار قدیمہ اور چین کی تین ریسرچ یونیورسٹیز نے خانپور کے قریب کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی مٹی کے برتن اور دیگر نوادارت 17 سو قبل مسیح  دور کے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ فن اور صنعت کافی پرانی ہیں۔  ایک اور رپورٹ کے مطابق محکمہء آثار قدیمہ پنجاب اور چینی آرکیالوجسٹ کی مشترکہ کاوشوں سے ٹیکسلا کے مقام پر بھی اسی قسم کے کھنڈرات ملے ہیں، جن میں مٹی کے برتن اور لوہے کے اوزار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ محکمہء آثار قدیمہ کے نمائندے ناصر خان نے بتایا کہ کھدائی  دوران ہمیں ایسی نادر اشیاء  ملتی ہیں جس سے ہمیں تاریخ شناسی اور قدیم تاریخ کے بارے میں سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ 

آرکیالوجسٹ شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائین کے ڈائریکٹر اور تاریخ دان سے ملاقات:             پاکستان اور دیگرایشیائی ملکوں مثلا ًبھارت، بنگلادیش او سری لنکا کا موازنہ  کیا جائے تو کمہار اور مٹی سے بنی اشیاء کی انڈسٹری کی حالت زار  ایک جیسی ہے۔ اس موضوع پر جامعہ سندھ کے شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائریکٹر سعید منگی کا کہنا تھا کہ برِصغیر سے تعلق رکھنے والے کمہاروں کی بنیاد ایک ہی ہے، کیونکہ یہ سب ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے کام کی مہارت، مالی وسائل اور مسائل تمام ممالک میں ایک جیسے ہیں، کیونکہ یہ لوگ معیشت میں کوئی واضح رول ادا نہیں کر پاتے ہیں۔ اس لیے حکومتی توجہ بھی اس طرف مائل نہیں ہوتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کمہار جس نفاست سے کام کرتے ہیں ہم ان سے بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔اسارے قدیمہ میں پیش آنے والے وقعات کو اپنی کاریگری سے مٹی کے برتن میں تصویرات بناکر محفوظ کرلیاگیا،یہی وجہ ہے کہ ثقافتی تہذہب بھی برتن کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی برتن پر بنی نقش ونگاری کی اہمیت ہے برتن میں بنی جانوروں کی تصاویر ہمیں دور ماضی کی جانوروں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ جیسے کہ مور کی تصوریر جو کہ برتن کے اُپری حصے میں نظر آتی ہے اس سے مور کی تعظیم کا احساس ہوتاہے۔ دوسری جانب مچھلی کی تصویریں بھی نظر آتی ہیں ایک برتن پر ہرنی اپنے بچوں کو دودھ پیلارئی ہے ہرنی کمر پر پرندہ بیٹھا ہے اور پسِ منظر میں  ایک مچھلی،پودے اور دوسری چیزیں نظر آرہی ہیں۔قدیم ثقافت کے یہ رنگ مٹی سے بنے قدیم برتنوں کی صورت میں ملے ہیں۔ سندھ میں اسارے قدیمہ کی ثقافت کے نمونے آج کے دور میں بھی ملتے ہیں جن میں اسارے قدیمہ میں مٹی سے بنے برتن پر مخصوص مصوری سے اسارے قدیمہ میں پائے جانے والی ثقافت کو محفوظ کیا گیا ہے برتن پر بنی مورتیوں میں لڑکیوں اور عورتوں کو زیورات بھی پہنائے گئے ہیں مثلا:کنگن اور چوڑیاں۔اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ دائیں ہاتھ میں کلائی تک چوڑیاں نظر آتی ہیں جب کہ بائیں ہاتھ میں کلائی سے کونی تک یا کونی سے بھی اوپُر کندھے تک چوڑیاں بھری ہوئی ہیں۔اس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ اسارے قدیمہ کی ثقافتی رنگ میں عورتوں کے لیے اسے ساڑھی نما لباس ہوا کرتے تھے جس میں دائیاں بازو ملبوس تھا اور بائیاں بازو آدھا برہنہ ہواکرتا تھا۔مویشی مورتیاں بھی مٹی کی ہیں مٹی میں بنائی جاتی تھی۔ان کی تعداد زنانہ مورتیوں سے کہیں زیاد ہ ہیں۔مثلاً کلی میں چھوٹی سی کھدائی میں چھیاسٹھ مورتیاں ملی ہیں اور شاہی ٹمپ میں پچاسی۔یہ ایک ڈھیر کی شکل میں ملی ہیں۔جس کا انداز ایسا ہے کہ یہ نہ تو کمہار کی بھٹی لگتی ہے نہ کھلونوں کی دوکان۔بلکہ دھرتی ماتا پر بھیٹ چڑھائے گے جانوروں کا ڈھیر لگتاہے۔ مٹی کے برتن پتھرکی سلوں کو اندراور باہر سے تراش کر پیالے،مگ،وغیرہ بنائے جاتے تھے۔ان میں اکثر ۲ یا ۳ اینچ چوڑے اور ۳ سے ۴اینچ اُوچے ہیں ایک چکور چار اینچ مربع برتن ملاہے جس میں چار خانے تراشے گئے ہیں بعض برتنوں میں کھدائی سے میناکاری کی گئی ہے۔بعض تکونے حصے میں بنے ہوئے ہیں غالباً یہ برتن عورتوں کے سنگھار کاسامان رکھنے کے کام آتے تھے۔قدیم زمانے کے لوگ مردوں کو دفن کرتے تھے تو ساتھ برتن اور اشیاء  بھی چھوڑ آتے تھے جانوروں کی قربانی دیتے تھے جادو کے خیالات یا مذہبی تفصیلات بھی ملتی ہیں۔گوشت خور تھے،گائے کا دودھ پیتے تھے،گائے کو ماتا سمجھتے تھے اور اسکی تعظیم کرتے تھے فصل اُگاتے تھے۔پیپل کے درخت کو اہم سمجھتے تھے۔ماضی میں مٹی کے برتن کی تاریخ کا مطلع کریں تو ہمیں مٹی اور کمہار کے رشتے کا معلوم ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے برتن ایران میں بنے۔ایران میں جوکالے برتن ۰۰۰۱ سے ۰۰۵۱ قبل مسیح میں بنے۔قبل مسیح ایران کمہار وں نے سرخ رنگ کے برتنوں پر پرندے،جانوروں،بیل بوٹوں کی تصویرات بنا نا شروع کی۔اسی طرح یہ ثقافت سیستان،بلوچستان اور سندھی تہذیب میں آپہنچی۔


ٓ

.................................................................................
پروفائل آپ کا لکھا ہوا ہے یا فضل کا؟ آپ دونوں نے بھیجا ہے۔
 آپ کا گروپ نمبر کیا ہےَ؟ 
 مین ٹاپک کیا ہے؟
لس900 الفاظ چاہئیں۔ آپ کی رپورٹ 500 الفاظ پر مشتمل ہے
محمد قاسم (2k17/mc/65)

ماہرین کی رائے اور آثار قدیمہ کی رپورٹس:
صادق حسن  جو کہ سماجی رہنما ہیں ان کے مطابق پوری دنیا میں آرٹسٹ کمیونٹی کو پروموٹ کیا جاتا ہے اور انہیں اعزازی طور پر عزت بھی دی جاتی ہے  لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق محکمہء  آثار قدیمہ  اور چین کی تین ریسرچ یونیورسٹیز نے خانپور کے قریب کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی مٹی کے برتن اور دیگر نوادارت 17 سو قبل مسیح  دور کے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ فن اور صنعت کافی پرانی ہیں۔  ایک اور رپورٹ کے مطابق محکمہء آثار قدیمہ پنجاب اور چینی آرکیالوجسٹ کی مشترکہ کاوشوں سے ٹیکسلا کے مقام پر بھی اسی قسم کے کھنڈرات ملے ہیں، جن میں مٹی کے برتن اور لوہے کے اوزار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ محکمہء آثار قدیمہ کے نمائندے ناصر خان  نے بتایا کہ کھدائی  دوران ہمیں ایسی نادر اشیاء  ملتی ہیں جس سے ہمیں تاریخ شناسی اور قدیم تاریخ کے بارے میں سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ 
پاکستان اور دیگر ایشیائی ملکوں مثلا بھارت، بنگلادیش اور سری لنکا کا موازنہ کیا جائے تو کمہار اور مٹی سے بنی اشیاء کی انڈسٹری کی حالت زار  ایک جیسی ہے۔ اس موضوع پر جامعہ سندھ کے شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائریکٹر سعید منگی کا کہنا تھا کہ برِصغیر سے تعلق رکھنے والے کمہاروں کی بنیاد ایک ہی ہے، کیونکہ یہ سب ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے کام کی مہارت، مالی وسائل اور مسائل تمام ممالک میں ایک جیسے ہیں، کیونکہ یہ لوگ معیشت میں کوئی واضح رول ادا نہیں کر پاتے ہیں۔ اس لیے حکومتی توجہ بھی اس طرف مائل نہیں ہوتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کمہار جس نفاست سے کام کرتے ہیں ہم ان سے بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
ُُپروفائل:
ضلع ٹنڈوالہیار کا رہائشی فیروز کا تعلق اس طبقے سے ہے، جو  صدیوں سے اس  پیشے سے منسلک ہے۔ جس پیشے کو اپنانے کا خیال ہم لوگوں  کے ذہنوں میں دور تک بھی نہیں آتا۔ یعنی مٹی کے برتن بنانا۔ جسے ظروف سازی یا کمہاروں کا پیشہ کہا جاتا ہے۔ فیروز کے آباٖ اجداد اس پیشے سے منلکس رہے ہیں۔ جب تک یہ سلور، کانچ، نام چنی اور پلاسٹک کے برتنوں کا رواج نہیں تھا، لوگ مٹی کے برتن ہی استعمال میں لاتے تھے۔ کہماروں کا گذر بسر بھی اس سے بخوبی ہو جاتا   تھا۔ مگر موجودہ  دور میں انتہائی حد تک پلاسٹک اور دیگر اشیاء سے بنے ہوئے برتنوں کے استعمال نے فیروز کے پیشے کو ایک بڑا زبردست معاشی جھٹکا لگا دیا ہے۔ اس کا خاندانی کام زوال پذیر ہے۔ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ میاں بیوی سمیت آٹھ افراد پر مشتمل فیروز کا خاندان بڑی غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ یہ کام انتہائی مشقت کا ہے۔ مٹی ڈھوکر لانا، اس کا گارہ بنانا پر اس سے مختلف اقسام کے برتن بنانا وار انہیں دھوپ میں سکھا کر کمال احتیاط سے مارکیٹ تک پہنچانا اس کے ذمہ داری ہے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

Tando Wali Muhammad Hsitory and culture

نياز اسٽيڊيم رڪارڊ - سرمد علي کوھارو

Course outline topics