ahsan nizamani معاشرہ صرف مرد اور عورت کا ہی ہے؟

احسن نظامانی
Roll No. 7
BS (Part-III)
آرٹیکل
کیا ہمارا معاشرہ صرف مرد اور عورت کا ہی ہے
معاشرہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں سے تشکیل پاتا ہے،وہ تمام افراد جو وہاں رہتے ہیں وہ اس معاشرے کا حصہ کہلاتے ہیں، لیکن اگر ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کی رائے جانیں اور موازنہ کریں تو وہ تمام افراد عموماً صرف مرد اور عورت ان دو جنس کا ہی ذکر کرینگے جبکہ ایک ایسا طبقہ بھی ہے جنہیں معاشہ قبول کرنے میں شرمندگی محسوس کرتا ہے اور انہیں مختلف اور نازیبا کلمات سے پکارا جاتا ہے۔کوئی انہیں ٹرانس جینڈرکہتا ہے یہ لفظ تو اتنا معیوب نہیں مگر زیادہ تر افراد ان لوگوں کو خواجہ سرا،ہیجڑایا پھر کھدڑا فقیر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔سب سے افسوس کی بات تویہ ہے کہ ایک تعلیم یافتہ طبقہ بھی ان کو حیثیت کو قبول کرنے سے قاصر ہے۔عام طور پر انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔کم اعتقاد والے لوگ انہیں کسی گناہ یا عذات کا نعم البدل سمجھتے ہیں۔ٹرانس جینڈر افراد کو معاشرے میں رہنے کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا ہے،بلکہ انہیں ایسے نظرانداز کرتے ہیں جیسے وہ کوئی مافوق الفطرت موذی مرض میں مبتلا ہوں جن سے کوسوں دور رہا جائے۔بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو نہ صرف انہیں دھتکارتے ہیں بلکہ مذاق بھی اُڑاتے ہیں۔ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں،نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتیہیں اُن کو تکلیف اور نقصان پہنچانے کی۔معاشرے کا فرد سمجھ کر قبول کرنا تو بہت دور کی بات ہے ہمارے لوگ تو انہیں انسان سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔
 2009 میں سپریم کورٹ میں قانونی طور پر یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ ٹرانس جینڈر ایک تیسیر جنس ہے اوراِس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ شناختی کارڈ بنایا جائیگا۔لیکن یہ فیصلہ صرف کورٹ کی حد تک ہی محدودرہ گیا۔آج اتنے سال گذرجانے کے بعد بھی کوئی عمل درآمد نہیں کروایا گیا ہے۔
 شناختی کارڈ نہ بننے کی وجہ سے انہیں نوکری کے حصول میں دشواری ہوتی ہے بلکہ نوکری مل ہی نہیں پاتی ہے۔جس کے باعث یہ لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا پھر غیرقانونی کام اور قابلِ اعتراض کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔اسی بات کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں ان لوگوں کی اہمیت مزید کم ہوجاتی ہے۔
 اس بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہت سے ٹرانس جینڈر نے مل کر احتجاج بھی کیا ہے کہ انہیں ان کے حقوق فراہم کئے جائیں اور شناختی کارڈ والی بات پر عمل درآمد ہو تاکہ وہ معاشرے میں ایک باعزت شہری کی طرح زندگی گذارسکیں۔نوکری کا حصول ٹرانس جینڈر طبقہ کیلئے انتہائی اہم اس لئے بھی ہوتا ہے کہ بہت ہی کم تعداد میں خاندان اور والدین اس بات کو قبول کرتے ہیں اور انہیں محبت اور شفقت سے اپنے گھر اور دِل میں جگہ دیتے ہیں مگر اس کی شرح انتہائی کم ہے جبکہ عام طور پر اس بات کی تصدیق ہونے کے بعد کہ وہ ٹرانس جینڈر ہے انہیں بر طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بے انتہا براسلوک کرنے کے بعد گھر سے نکال دیا جاتاہے یا پھر ٹرانس جینڈر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے وہ ہر طرح کے کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔بات صرف گھر والوں کی حد تک محدود کہاں رہتی ہے،قدری طور پر ٹرانس جینڈر پیدا ہونا اِن کا سب سے بڑا گناہ بن جاتا ہے۔گھر والے تو انتہائی بدترین سلوک کرتے ہیں جبکہ ہمارا معاشرہ بھی انہیں سکون کی زندگی نہیں جینے دیتا ہے،کوئی بھی شخص اِن کی حیثیت تسلیم کرنے کا زوادر نہیں ہوتاہے۔
 2017 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق پورے پاکستان میں ٹرانس جینڈر کی کل تعداد تقریباً10,418 ہے اتنی قلیل تعدادہونے کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ ٹرانس جینڈر کو مردم شماری کے دوران مرد شمار کیا جارہا تھا جس کے پیشِ نظر اُن لوگون نے احتجاج بھی کیا۔دوسری حیران کُن وجہ ٹرانس جینڈر کا بے وجہ قتل ہے آئے روز نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔حال ہی میں دوٹرانس جینڈر کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتارا گیا یہ واقعہ چیچہ وطنی میں پیش آیا قتل کی کوئی مثبت وجہ نہ تھی قاتلوں نے صرف دیوار پہ خون سے یہ تحریرلکھی تھی کہ جو بھی ٹرانس جینڈر ایسا کرے گااس کا یہ ہی انجام ہوگا۔
 معاشرے کو ٹرانس جینڈر طبقے کے حقوق فراہم کرنے چاہئییاگر وہ حقوق فراہم نہیں بھی کرپاتے تو کم از کم انہیں ایک انسان اور اپنے ہی معاشرہ کا حصہ سمجھنا چاہیے۔حکومتِ پاکستان کو یہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر فوری عمل درآمد ہو اور اُن کے شناختی اکرڈ فوری طور پر جاری کردینے چاہئے تاکہ وہ باعزت طریقے سے روزگار کما سکیں۔اگر ان تمام باتوں پر عمل پیرا کرلیا تو معاشرہ بہتر سے بہتر ہوسکتا ہے اور وہ ہی معاشرہ ترقی کی طرف گامزن ہوتا ہے جہاں کے شہریوں کو برابرطور پر ان کے حقوق کی فراہمی کی جائے اور اُن کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔

Comments

Popular posts from this blog

نياز اسٽيڊيم حيدرآباد Chhachhar group

Raheel Jarwar

ameet kolhi sindhi feature