Ahram - Article کیا مشقت کا رواج آج بھی قائم ہے؟
آرٹیکل:ارحم خان
رول نمبر:18-mc-2k17
کیا سندھ میں جبری مشقت کا رواج آج بھی قائم ہے؟
" کپڑ ے کی فیکٹری میں آگ لگنے سے سیکڑوں مزدور ہلاک ہوگئے، زمیندار نے کسان کی سال بھر کاشتکاری کی زمین بیچ دی،جاگیردار نے چھ سال سے فصل کی پیداوار کی قیمت دینے کے بجائے کسان کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا،وڈیرے نے ایک لاکھ روپے کے عوض کسان کے گھر کے زیورات بینک میں رکھ دیے اور سودکھاتارہا، سیور کی کھدائی کرتے وقت پاس کے نالا کا پانی گڑھے میں بھرگیا۔جس سے دو مزدور ڈوب کرہلاک ہوگئے، آ ئے دن ہم ایسی خبر یں سنتے ا ور دیکھتے ہیں۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی،ایل،او) کے مطابق جبری مشقت ہر وہ کام ہے جو کسی شخص سے اسکی مرضی کیخلاف لیاجائے، اور وہ شخص یہ کام کسی سزا کے خوف سے کرنے پر مجبور ہو۔قرضہ جاتی غلامی جو کہ جبری مشقت ہے ایشیا ئی ملکوں اور زرعی معاشروں میں خصوصی طور پر پائی جاتی ہے۔ جبری مشقت دراصل مزدور کے اپنے زمیندار سے قرضہ لینے سے شروع ہوتی ہے اور اگرمقروض اس قرض کی ادا ئیگی سے قاصر رہے تو اسے قرض خواہ کیلئے ایک معینہ یا غیر معینہ مدت کیلئے مشقت یا خدمت انجام دینا ہوتی ہے۔ قرضہ جاتی غلامی کے باعث غریب مزدور آزادانہ زندگی ختم کرکے اپنی باقی زندگی غلامی میں گزار دیتے ہیں۔ جبری غلامی کے باعث مستقبل کے معمار تعلیم کی روشنائی سے بھی محروم ر ہے جاتے ہیں۔
پاکستان میں انسانوں کی خرید و فروخت کے عمل کی روک تھا م کا فیصلہ معاشرے کے لئے بہتر نتائج کا حامل ہے اور اس ضمن کا متقاضی ہے کہ اس پر مزید غوروعوض کیا جائے۔کیونکہ مزدور کو غلام سمجھنے والے آج بھی معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہیں آج بھی سند ھ کے دیہی علاقوں میں زرعی پیداوار،اینٹ بھٹہ،قالین کی بنائی جیسے کاموں میں مرد خواتین اور بچے جبری مشقت کرتے ہیں۔ زمیندار چھوٹے موٹے قرضے کے عوض غریب کسانوں سے پوری پوری زندگی جبری مشقت کرواتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کمانے والے مزدور کی زندگی کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیتے ہیں۔جبری مشقت کے رواج کی وجہ سے مزدور کا بیٹا بھی مزدور اور غلامی کی زندگی میں دھنستارہتاہے۔ جبری مشقت میں مزدور سے اُسکی استطاعت سے زیادہ کام لینا جبر اً غلا م بنانے کے مترادف ہے۔مزدور غریبی کی غلامی سے نجات پانے کے لیے محنت ومشقت کرتاہے لیکن جاگیردارانہ نظام مزدور کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھتاہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پینل کوڈ میں جبری مشقت اور غلامی سے متعلق دفعات موجود ہیں۔ دفعہ (۰۷۳) انسانوں کی بطور غلام خریدوفروخت سے منع کرتی ہے اور اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو غلام بنا کر درآمد یابر آمد کرتا ہے، خرید و فروخت کرتاہے،اسے پابند رکھتاہے تو اسکی سزاسات سال تک قید اور جرمانہ ہے۔دفعہ (۱۷۳) کے مطابق اگر کوئی شخص جس نے غلاموں کی درآمد، خریدوفرخت اور اسمگلنگ کو پیشے کے طور پر اختیار کرے تو اس پر سزا دس سال تک قید اور جرمانہ ہے،جبکہ دفعہ (۴۷۳) کے مطابق اگر کوئی شخص دوسرے کو اسکی مرضی کیخلاف جبری مشقت کیلئے مجبور کرتا ہے تو ا ُس پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید اور جرمانہ عائد ہوتا ہے۔اس کے باوجود سندھ بھر میں ہزاروں کی تعداد میں جبری غلامی میں مزدور کام کررہے ہیں،جن میں مرد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) کی رپورٹ کے مطابق جبری مشقت میں جنوبی ایشائی خطہ پوری دنیا میں سر فہرست ہے۔دنیا میں ۲ کروڑ ۰۷ لاکھ افراد غلامی کی زندگی گزارہے ہیں،جبکہ پاکستان میں ۰۲لاکھ افراد جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اعدادو شمار کے مطابق بھارت، پاکستان،بنگلہ دیش اور نیپال میں ایک کروڑ ۰۵ لاکھ افراد جبری مشقت کے باعث جدید دور میں بھی غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں،اور ان کی اکثریت اجرت سے محروم رہتی ہے۔
پاکستان میں جبری مشقت اور انسانوں کی اسمگلنگ (یعنی خریدو فروخت)ممنوع ہے۔اور 1992 کے قانون میں جبری مشقت کا ختمہ کیا جا چکا ہے۔لیکن پھر بھی سندھ کے دیہی علاقوں میں زراعی پیداورا، اینٹ بھٹہ،قالین کی بنائی جسے کاموں میں مرد خواتین اور بچوں سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے۔
پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں جبری مشقت کرنے پر مجبور ۲۷ فیصد افراد کا تعلق سندھ سے ہے ایسے مزدور وں کی بڑی تعداد زراعت،اینٹو ں کے بھٹوں اور قالین بنائی کی صنعتوں سے وابستہ ہے اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے ۰۵ فیصد بچے ۰۱سے۴۱ سال کی عمر کے ہیں۔ان بھٹوں پر خواتین اور بچوں کو مزدوروں کی فہرست میں شامل کئے بغیر ہی کام لیا جاتا ہے اور ان کی اکثریت اجرت سے محروم رہے جاتی ہے۔ پاکستان بھٹہ مزدور یونین کے جنرل سیکرٹری محمود احمد کے مطابق بھٹہ مزدور کی کم ازکم اجرت دو سال قبل ایک ہزار اینٹوں کی تیاری پر ۰۵۸روپے مقرر کی گئی تھی،مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
کب تک انسانیت اجرت کے عوض خریدی جاتی رہیگی؟کب تک غریبی انسان کو غلام اور مقروض بناتی رہے گی؟کب تک مزدور بہترین زندگی کے وسائل حاصل کرنے کی دوڑ میں لگارہیگا؟کب تک انسانی حقوق کے علمبردار اپنے ضمیر کو لیے سوتے رہینگے؟صنعت کار،حکم،جاگیردار جب تک مزدور کو اپنی جاگیر سمجھتے رہینگے تب تک انسانیت پستی کے طرف د ھکیلی جاتی رہے گی۔
کیا معاشرہ بااثر افراد کو جبری مشقت کروانے کی اجازت دیتاہے؟ کیا قانونی اصول و ضوابط ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں؟اگر نہیں توکیوں ہیومن راٹس کے علمبرداراسے روکنے میں ناکام ہیں؟ کیوں حکومتی ادارے اس عمل سے با خبر ہوکر بھی بے بہرہ ہیں۔اداروں کو جبری مشقت کے متعلق عوام کو قانون سے آگاہ کرنے کی اشدضرورت ہے۔
Comments
Post a Comment