یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک Shaoor 1-2020


ایڈیٹنگ فلک حفصہ
یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک
گھریلو سجاوٹ کرنے  والے اجڑتے ہاتھ 

تحقیقاتی رپورٹ:  ارحم خان، فیصل الرحمٰن، سعدیہ یونس

  دستکاری کا ہنر کئی سو سال پرانا ہے۔ہر زمانے میں انسان اپنے ہاتھوں سے مختلف چیزیں بناتے رہے ہیں۔کبھی انسانوں نے پتھروں کو تراش ایک خوبصورت مجسمے کی شکل دی تو کبھی لکڑی پر اپنے ہاتھوں کے جوہر دکھائے۔ہر دور میں انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے ایسے کئی ہی فن،نقش ونگار اور ایسی کئی ہی ہزاروں منفرد اور مختلف چیزیں بناتے رہے ہیں جو کہ ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اسی طرح آج بھی دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کہ دستکاری کے ہنر سے وابستہ ہیں اور بہت سی سادہ چیزوں کو اپنے اس ہنر کی بدولت انتہائی دلکش اور دلفریب بنا دیتے ہیں کہ دیکھنے والا عش عش کر اُٹھتا ہے۔دستکاری کسی بھی علاقے کی ثقافت اور اس کے تہذیبی تمدن کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

 پاکستان ہنڈی کرافٹ ایسوسیشن کی رپورٹ کے مطابق ہر شہر کی دستکاری کی اپنی ایک الگ پہچان ہے اور اپنا ثقافتی رنگ ہے جیسا کہ سرگودھا کی دستکاری کا      ¿چبامشہور ہے۔ملتان دستکاری میں اونٹ کی کھال سے بنے خوبصورت نقش ونگاری کے لیمپ اور مٹی کے نیلے رنگ کے برتن کی وجہ سے مشہور ہے óپشاور کی بنی پشاوری چپل مشہور ہے ó بلوچستان کی دستکاری میں رلی،قالین،رضائی وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں óاسی طرح سندھ کی ثقافت کی بھی الگ پہچان ہے۔جس میں اجرک،سندھی ٹوپی، مٹی سے بنے برتن،چٹا ئیاں، مخصوص نقش و نگاری کے پردے اورگھر کی سجاوٹ کے لیے دوسری  چیزیں شامل ہیں۔

 دستکار ایک ایسا فنکارہوتاہے۔جو کہ اپنے فن سے ایک سادہ اور عام فہم چیز کو بھی اس خوبی سے اپنے ہاتھوں سے ڈیزائن کرتا ہے۔ کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔دنیا بھر کی طرح پاکستان کے بھی ایسے بہت سے شہر ہیں۔ جہاں مختلف قسم کی دستکاری کی جاتی ہے۔دستکاری کا یہ سلسلہ کئی برسوں سے چلتا آرہا ہے۔

     حیدرآباد کے دستکارکہاں سے آئے؟ 
 پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح حیدرآباد میں بھی چند ایسے خاندان موجود ہیں جو کہ دستکاری کے اس ہنر سے وابستہ ہیں،اور کئی دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔دستکاری کا یہ پیشہ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے کا ہے۔اسی لیے دستکاری کے اس ہنر کو پاکستانی ثقافت کی بجائے سندھ کی ثقافت کہا جاتا ہے۔یہاں پر کام کرنے والے ذریعہ معاش کی غرض سے کئی سال قبل راجستھان کے علاقے تھر سے حیدرآباد آ کر آباد ہوئے تھے۔یہ لوگ حیدرآباد میں دیالداس کلب کے نزدیک روڈکی دونوں اطراف فٹ پاتھ پر دستکاری کی چھوٹی سی دنیا آباد کئے، اپنے ہاتھو ں سے بنائی ہوئی مختلف چیزیں سجائے بیٹھیں ہیں۔    
 جہاں سندھ کے دوسرے شہروں میں مٹی،پتھر،کپڑے پر دستکاری ہوتی ہے تو وہی حیدرآباد کے یہ منفرد دستکار بھانس اور پھونس سے دستکاری کے مختلف نمونے بناتے ہیں۔یہ لوگ بھاس اور پھونس سے کرسیاں،پردے،چکیں، میزیں،دیواری سجاوٹ اور بچون کے مختلف کھلونے وغیرہ بناتے ہیں۔دیواری سجاوٹ کی چیزوں میں تصاویر،اجرک پرنٹ اور چھوٹے شیشے کے ٹکڑے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔جو کہ سندھی آرٹ کا خاصہ بھی ہے۔خصوصی آرڈر پر یہ لوگ پھولوں کے پیچیدہ ڈیزائن، نقشے، خطاطی اور دیگر چیزیں بھی بناتے ہیں۔

کچے مکان بنیادی سہولیات سے محروم محنت کش          
  یہ چند ہی مخصوص خاندان باقی ہیں جو کہ اپنے آباؤ اجدادکے اس قدیمی ورثے کو سنبھالے ہوئے ہیں۔حیدرآباد میں دستکاری سے وابستہ ۰۴ سے ۰۵ گھرانے موجود ہیں،جوکہ دیالداس کلب کے پیچھے کچی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔یہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ صبح سے لے کر رات تک محنت کرتے ہیں اور فٹ پاتھ پر اسٹریٹ لائٹ پر کام کرتے ہیں۔اس پیشے سے وابستہ ایک عورت ثمینہ شیخ کا کہنا تھا۔ کی جتنی صفائی اور دلجوئی سے کام کیا جائے اتنا ہی گاہک متوجہ ہوتا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ سب سے مشکل کام سجاوٹی اشیاء بنانا ہے۔کیونکہ بہت باریکی سے یہ کام کرنا پڑھتا ہے۔شیشے کے مختلف ڈیزائن کے کٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو بھانس کی کانی پر رکھ کر مختلف رنگ برنگے دھاگوں سے لگایا جاتا ہے۔ایک بہترین سجاوٹی چیز کو تیار کرنے میں دو سے تین دن لگتے ہیں۔باقی اس کے علاوہ میز، کرسیاں،پردے وغیرہ بنانے میں بھی کافی محنت درکار ہوتی ہے۔ لیکن ان میں وقت کم لگتا ہے۔اور سجاوٹ کی زیادہ تر اشیاء ان کی خواتین ہی تیار کرتی ہیں۔ 

دستکاری کا سامان پنجاب سے لاتے ہیں 
   دستکاری کا کام کرنے والے جو کہ خود ۰۸سال قبل آئے تھے۔حیدرآباد دیالداس کلب کے سامنے دستکاری کا پیشہ سر انجام دے رہے ہیں۔جن کے آباؤاجداد کا تعلق راجھستان سے تھا۔ہم نے جب ان دستکاروں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ دستکاری کا سازو سامان پنجاب سے لایا جاتا ہے۔ لیکن سندھ کی ثقافت کی چھاپ یہاں لگائی جاتی ہے۔ مختلف رنگوں کی نقش و نگار اپنے فن سے تیار کرنے کے بعد فروخت کی جاتی ہیں۔ ان نقش ونگاری میں مختلف مصنوعی پرندے بنائیں جاتے ہیں۔ دستکاری کے پیشے میں کا م کرنے والے سریش کمار کے مطابق دو سال قبل دستکاری کا سامان جو کہ ایک پردے کا دستہ فی فٹ ۰۸ سے ۰۰۱ روپے پڑتا تھا۔ جس کو مزید نقش ونگاری سے خوبصورت بنایا جاتا تھا۔ اُسکی مالیت ۰۰۳ ہو جاتی تھی۔لیکن اب وہ فی فٹ دستہ ہمیں ۰۰۳ کا پڑ تا ہے۔ جو کہ مزید کام ہونے کے بعد مالیت کے اعتبار سے ۰۰۷ روپے فٹ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دن بھر میں ہماری درجن کے قریب مختلف چیزیں تیار ہوجاتی ہیں۔دستکاری کا یہ پیشہ زبوں حالی کاشکارہونے کی سب سے بڑی وجہ وسائل میں کمی ہے۔ ہم اگر گھر کی تزئین و آرائش کے لیے پردہ، سیندری،سٹول،جھولا، بناؤ سنگھار کے لیے شیشہ تیار کربھی لیں۔لیکن پھر بھی ہم خریدار کا انتظار یہی کرتے ہیں۔ وسائل کی کمی کے وجہ سے دوسری دوکانوں یا برآمد کرنے کے لیے دوسرے شہروں کا رخ نہیں کرسکتے۔

 کوئی حکومتی نمائندہ ہنر کو سر اہانے نہیں آیا 
  راہول جیت  نے تقریبا ۵۶ سال قبل حیدرآباد دیالداس کلب کے سامنے دستکاری کا پیشہ اپنایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہنر بادشاہ اور تعلیم وزیر ہے یہ ہمارے باپ دادا کا قول ہے۔ جنھونے ہمیں ہنر سکھایا، اور اس بات کی تلقین بھی کی ہنر سیکھوگے تو بادشاھ بنوگے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ہنر سیکھاتے ہیں۔ انھیں اس بات کی تلقین کرتے ہیں۔کہ سندھ کی ثقافت کاہنرزوال پذیر نہ ہو۔ دستکاری کا یہ پیشہ آباؤ اجداد کے عطا کردہ ہنر کے باعث ہے۔یہی وجہ ہے کہ دستکاری کا یہ ہنر پس مانندہ نہیں ہوسکتا۔اگر چہ دورِ جدید میں الیکٹرونک پرینٹنگ کی مانگ بڑھ گئی ہے۔لیکن ہاتھ سے بنے خوبصورت نقش کی پہچان الگ ہی دیکھی جاسکتی ہے۔جہاں ریڈی میٹ کاڑھائی نے نقش و نگار ی کی خوبصورتی کو مدھم کردیا ہے۔ وہی دستکاری کا ہنر آج بھی معقول حیثیت رکھتا ہے۔آج کے جدیدد ور میں بھی دستکاری کی اہمیت سے آشنا لوگ گھر کی تیزئین وآرائش کے لیے اپنی من چاہا چیزیں خریدکر لے جاتے ہیں۔ جن میں چٹائیاں،جھولا، دیواری نمائش کے لیے پردہ،سیندری،اور بناوسنگھار والے شیشے شامل ہیں۔ 

دہرا امتیاز
 دس سال سے دستکاری کا کام سرانجام دینے  والے  اشوک کمار کے مطابق اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی ہم غلامی کی زندگی میں جینا نہیں چاہتے۔ ہم غیر مذہب کو حقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔لیکن پھر بھی معاشرہ ہمیں زات، رنگ روپ کم تر سمجھ کر حقیر جانتا ہے۔ہم بھی معاشرے میں آزادنہ رہن سہن کے لیے خوا ہش رکھتے ہیں۔ ہم بھی دوسروں کی طرح اپنے حق لینا چاہتے ہیں۔لیکن غریب کی مجبوری کا سُنا تو دور کی بات ہے آج تک کوئی حکومتی نمائندہ ہمارے اس دستکاری کے ہنر کو سر اہانے نہیں آیا،برعکس اسکے اگر ہمارے بچے جن اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔وہاں کولی یا نچلی ذات کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ان بچوں سے غیر منصفانہ رویہ رکھا جاتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہمارے بچے تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم رہ جا تے ہیں۔ اگر تعلیم حاصل کر بھی لیں تو ایسے کئی بچے ہیں۔جنھیں سرکاری ملازمت تونہیں کم ذات کا ہونے کے باعث سرکاری ملازم کے گھر چوکیدار یا آیا کی ملازمت کرنی پڑھتی ہے۔   

 اپنے مذہب میں بھی کمتری  
  ذات پات یا نظام ذاتیات ہندوں میں قدیم زمانے میں ایک نظام پایا جاتا تھا۔ جس کی تحت زمانہ قدیم ہندو معاشرے کو چار ذاتوں میں تقسیم کر دیا گیا۔پہلا مذہبی گروہ برہمن جو کہ علم و مذہب کے محافظ تھے۔ اور دوم چھتری اور کھتری جو کہ دنیاوی امور کے محافظ تھے۔ اور سوم ویش جو کہ زراعت اور تجارت سے دولت پیدا کرتے تھے۔ چہارم ہندوں ذات شودر ہے۔ جو کہ خدمت کرنے کے لئے مخصوص تھے۔ ان سب پیشوں کے لحاظ سے آگے کئی قسمیں ہوگئیں۔بدھ مذہب نے اس ذات پات کی تفریق کو مٹانے کی کوشش کی لیکن یہ مٹ نہ سکیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ چھوت اور اچھوت قومیں وجود میں آئیں۔چھوت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں چھونا بھی براخیال سمجھا جاتا ہے۔یہ لوگ اپنے معاشرے میں کم تر خیال سمجھے جاتے ہیں۔نیز انکے معاشی حالات بھی انتہائی نہ گفتہ ہوتے ہیں۔                     
 ان کو مذہبی لحاظ سے بھی کم تر سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ انکی ذاتوں میں سب سے ذیادہ نچلے درجے کی یہ چند ۴ذاتیں ہیں۔جو کہ ہندوں براددری میں کم تر سمجھی جاتی ہیں۔اچھوت  اور کچی ذات ان میں نچلے درجے کی ذاتیں مانی جاتی ہیں۔اور انھیں انسانی حقوق سے بھی محروم رکھتے ہیں۔ان کو ہر لحاظ سے محرومیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان لوگوں کے بچوں کو نہ تو بہتریں اسکولوں کی تعلیم دی جاتی اور نہ کوئی ہنر دیا جاتا ہے۔ حیدآباد دیالداس کلب کے باہر بیٹھی یہ قوم نہ تو انکے پاس رہنے کے لئے گھروں کی آسائش ہے نہ ہی ضرورت کی اشیاء موجود ہے ان لوگو ں نے فٹ پاتھ کو ہی اپنا گھر بنا رکھا ہے۔اور وہیں اپنی زندگی گزر بسر کر رہے ہیں۔بہت سے لوگ جن کے آباووجدادجو کہ ۰۸  سال سے اس دستکاری کے ہنر کو لے کر آج بھی اپنی زندگی اسی فٹ پاتھ پر گزار رہے ہیں۔

   دستکاروں کے بچوں کی تعلیم سے محرومی
  یہ لوگ ذیادہ تراپنے آباووجدادکی باتوں پر عمل کرتے ہیں فٹ پاتھ پر دستکاری کا کام کرتے وقت  نارو جوگی  نے بتایا کہ وہ اس کام کے علاوہ کوئی دوسرا کام کے ہنر کو کیوں نہیں اپناتے تو انھوں نے بتایا۔کہ ہمارے بڑے یہ کام ۰۰۱ سال سے کرتے ہوئے آرہے ہیں۔ اور ہمارے بڑوں نے کہا ہے کہ اپنے اس دستکاری کے ہنر کو نہیں چھوڑنا اسی لئے ہم لوگوں نے اس دستکاری کے ہنر کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ اور یہی پیشہ ہمارا نسل در نسل چلتا ہوا آرہا ہے۔
 ان لوگوں کی کمائی کا سبب بس یہی دستکاری ہے۔ اور باقی کچھ لوگ بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں۔بچے اور بچیاں سڑکوں اور گلی گلی جا کر بھیک مانگتے ہیں۔اور اپنی زندگی گزربسر کرتے ہیں۔ان میں سے کچھ خاندان ایسے ہیں جن کے بچے گھروں اور بنگلوں میں جھاڑو اور پوچھا لگانے اور  مالی کا کام کرکے اپنا گھر کا خرچ پورا کرتے ہیں۔ان لوگوں کے بچو ں کے پاس تعلیم کی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کی نچلی ذات کی وجہ سے ان لوگوں کو دھتکار دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے جس سے ان کے بچے تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں۔

دستکاروں کی معاشی زبوں حالی
   سرکاری سطح پر عدم توجہ کے باعث زبوں حالی کا شکار ہونے والا یہ د ستکاری کا ہنر سندھ کی ثقافت کی تنزلی کی وجہ بھی بنتا جارہاہے۔ ہمیں اپنی مجبوریوں،وسائل کی کمی، اور مسائل کے بہتات پر حکومت سے اپیل کرنے کا خیال آبھی جا تا ہے۔تو ہم اس خیال کو یہ سوچ کر رد کردیتے ہیں کہ جوسرکاری ملازم ہیں۔وہ خود آئے دن اپنی تنخواہوں کی ادائیگی کا رونا روتے اور پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہیں۔ تو ہم نچلی ذات والے ہماری شنوائی کیوں کر ہوگی؟،مہنگائی کے باعث دستکاری کی کڑھائی،بنائی کا سامان بھی مہنگا ہوگیا ہے۔جس کی وجہ سے دستکار اپنا پیشہ چھوڑ کر فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔یہ بھی وجہ ہے کہ دستکاری کی کاڑھائی بنائی کا کام مدھم ہوتا جارہا ہے۔ ترقی پزیر قوموں کی یہ پہچان ہے کہ وہ اپنی ثقافت کوکبھی تنزلی کا شکار نہیں ہونے دیتی دنیا میں پنپنے کے لیے اپنی ثقافت کو مستحکم رکھنا ضروری ہے۔ سندھ کی ثقافت کو زوال سے بچانے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ دستکاری کے عمل کو جاری و ساری رکھا جائے۔

حکومتی عدم سرپرستی
  اس دستکار برادری کے لئے حکومتی طور پر کہیں بھی کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ سندھ کی اس قدیم ورثے کو زندہ رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا۔اور نہ ہی آج تک کوئی حکومتی نمائندہ ان کے پاس ان کے مالی مسائل سننے آیا اورنہ ہی کسی نے اس ہنر کی پستی پران کے سر پر دست شفقت رکھا۔ اس ورثے کو زندہ رکھے ان لوگوں اور بچوں کے سروں پرآج بھی چھت نہیں اور نہ ان کے ذاتی گھر۔حکومت کی جانب سے کئی بار ان سے جگہ دینے کا وعدہ تو کیا گیا پرافسوس حکومت کے دوسرے وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔  یہ لوگ فٹ پاتھ پر ہی سوتے ہیں۔ وہیں پر کھانے پینے کی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر خواتین دستکاری کے کام کرتی ہیں۔ سجاوٹ وغیرہ میں خواتین ہی ان سجاوٹی چیزوں کو اجرک سے سجاتی ہیں۔ موتی شیشے وغیرہ کا استعمال کرکے اس کی بناوٹ میں خوبصورتی لاتی ہیں۔ان میں سے کچھ خواتین سے ہم نے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ہم لوگ اس کام کو محنت سے کرتے ہیں اور اس سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں مگر دوسرے لوگ اس فٹ پاتھ پر بیٹھ دستکاری کے کام کرنے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں اور غلط سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس یہ ہنر ہے۔اور ہمیں دستکاری کے کا م کا شوق ہے۔ اسی لئے ہم دستکاری کے کام کرتے ہیں اسی سے اپنی دال روٹی کا گزارا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ُپروفائل۔
ثمینہ شیخ کی چھوٹی سی دنیا 
  ہمارے معاشرے میں خواتیں کو صنف نازک سمجھا جاتا ہے اور ایک عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ خواتین کمزورہوتی ہیں۔لیکن خواتین بہت مرتبہ یہ ثابت بھی کر چکی ہیں کہ وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔اسی طرح کی ایک دستکار محنتی خاتون ثمینہ شیخ ہے۔ جو کہ دیالداس کلب کے سامنے فٹ پاتھ پر دستکاری کی اپنی ہی چھوٹی سی دنیا آباد کیے بیٹھی ہے۔دنیا کی سرگرمیوں سے بے خبر اپنے کام میں مگن بیٹھی یہ اپنی دستکاری کے مختلف نمونے بنا رہی ہوتی ہے۔ثمینہ شیخ جس کا پرانہ نام راکھی تھا،آج سے تقریبا ۶۱ برس پہلے اس نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر کے اپنا نام ثمینہ شیخ رکھا۔ثمینہ شیخ جس کے خاوندنے مذہب کی تبدیلی کے بعد اس سے راہیں جدا کر لیں۔لیکن اس با ہمت خاتون نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے خود کو اس قابل بنانا چاہا کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ثمینہ شیخ نے آج سے ۶۱ پہلے اس دستکاری کے ہنر کو پیشے کے طور پر اپنا لیا۔اور دستکاری کا ہنر سیکھنا شروع کیا۔وہ اپنے گھر کی واحد کفیل تھی۔
 ثمینہ شیخ کے ۲ بیٹے اور ۲ بیٹیاں ہیں۔اس کی بھی خواہش تھی کہ اس کے بچے پڑھیں اور وہ ہر گز ایسی زندگی نہ گزاریں جیسے وہ فٹ پاتھ پر بیٹھی ہوئی ہے۔لیکن قسمت اور حالات نے اس بات کی اجازت نہ دی اور ایک بیٹا اور ایک بیٹی صرف تیسری جماعت تک ہی تعلیم حاصل کے سکے۔مالی حالات اتنے بہتر نہ تھے کہ بچوں کو آگے پڑھا سکتیں۔حالات اور وقت کو دیکھتے ہوئے بچوں نے بھی اپنی ماں کے ساتھ یہی دستکاری کا کام کرنا شروع کر دیا،اور اسے اپنا روز گار بنا لیا۔
 ثمینہ شیخ ایک سادہ دل اور نرم گو خاتون ہیں۔اپنے ہاتھ سے بنائے ان کے خوبصورت نمونے اور مقدس نام دیکھنے والوں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ان نمونوں کو دیکھ کر گاہک خودبخود چلے آتے ہیں۔قدردان ا نکی محنت کے مطابق معاوضہ بھی ادا کرتے ہیں۔مگر اس طرح کے قدردان اور گاہک کم ہی بچے ہیں۔کیونکہ یہ دور مشینی دور ہے اب لوگ ان نمونوں سے زیادہ کمپیوٹرائز وال پیپر اور ڈیزائیننگ پینٹنگز کو ترجیح دے رہے ہیں۔کیونکہ وہ زیادہ تر پر کشش اور رنگیں ہوتی ہیں۔اسی لیے شہری اس دستکاری کے نمونوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ثمینہ شیخ کا کہنا تھا کہ ویسے تو مختلف نمونے بنائے جاتے ہیں لیکن تنکوں اور مخملی کپڑے سے بنی قرآنی آیات،مقدس ہستیوں کے نام اس ہنر کو تقویت بخشتے ہیں۔ اکثر لوگ ان سے اپنے نام کے بھی ڈیزائن فرمائش پر بنواتے ہیں۔
 معاشرے کی دھتکار اور طنز بھری نگاہیں آج بھی ثمینہ شیخ کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکیں۔بلکہ اس کا کہنا تھا کہ ان سب باتوں سے میں ہمت نہیں ہارتی بلکہ میرا حوصلہ اور بھی بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ثمینہ شیخ کے ہاتھ سے بنائے ہوئے دستکاری کے چند نمونے جامعہ سندھ کی بینظیر آرٹ گیلری میں سندھی ثقافت کے طور پر سجائے ہوئے ہیں۔ثمینہ شیخ کا کہنا تھا کہ میرے لیے یہ سب سے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں سندھی ثقافت یہ نمونے بنا رہی ہوں۔

Comments

Popular posts from this blog

نياز اسٽيڊيم حيدرآباد Chhachhar group

Raheel Jarwar

ameet kolhi sindhi feature