کتاب سے ڈیجیٹل اسکرین تک - سید حمزہ حسین
Subject: Creative writing Work done under supervision of Siddique Soomro Sb
سید حمزہ حسین
(2K17/MC/98)
کتاب سے ڈیجیٹل اسکرین تک
اپنے وسیع تر مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ کی گئی ہو کتاب کہلاتی ہے۔کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں کیونکہ جب انسان تنہا ہوتا ہے تو کتابیں ہی اُس کا دل بہلاتی ہیں۔بلکہ کتابیں بہترین دوست ہونے کے ساتھ ساتھ معلومات کا بھی خزانہ ہوتی ہیں۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہم یورپ کی اس حقیقت سے لگا سکتے ہیں جس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ یورپ کو تاریکی دور سے اُن کتابوں نے نکالا ہے جو سائنس دانوں اور اہل علم نے لکھیں تھیں۔
جیسے جیسے دنیا ڈیجیٹلائزڈ ہوتی جارہی ہے ویسے ہی لوگوں نے دورِ جدید میں کتابوں کوبھی ڈیجیٹلائزڈ کرنا شروع کردیا ہے۔ لوگوں نے کتابوں کو کُتب خانوں میں بند کرکے ڈیجیٹل بُکس اور ڈیجیٹل لائبریری کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے جس کا شما ر دورِ جدید کی سب سے بڑی ٹیکنالاجی ”ڈیجیٹل اسکرین“ میں ہوتا ہے۔ اِس ایجاد نے لوگوں کو کتاب سے دور کردیا ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ نوجوانوں میں موبائل فون، ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ وغیرہ کا بے جا استعمال ہے۔ پہلے جو لوگ اپنے ہاتھوں میں کتاب اُٹھائے ہوتے تھے اَب وہی لوگ اپنے ہا تھوں میں موبائل فونز اُٹھائے ہوتے ہیں۔ کتاب کی افادیت اپنی جگہ ہے اور لوگوں کا اُس سے تعلق قائم رہنا چاہئیے لیکن اشاعتی اداروں نے دورِ جدید کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتابوں کو کاغذی اور برقی صورت میں پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ جس وجہ سے اَب اُردو، سندھی اور دیگر زبانوں کی کتابیں مختلف ہیئت (ای۔پب،پی۔ڈی۔ایف وغیرہ)میں آن لائن موجود ہیں۔
آج کل لوگ جدید ٹیکنالاجی سے بہت زیادہ رغبت رکھتے ہیں اور اُن ذرائع کو استعمال کرنا پسند ہیں جو نئے انداز سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اسی صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے۔ ڈنمارک میں مقیم پاکستانی اور ہونہار شاگرد مدثر علی جوکہ آئی۔ٹی کے ماہر ہیں اور کوپن ہیگن کے ایک بین الاقوامی ادارے میں اہم فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بچوں کے لیے سبق آموزکہانیوں پر مبنی ایک موبائل ایپ تیار کی ہے تاکہ بچے موبائل میں دوسری چیزیں دیکھنے کے بجائے اِس ایپ سے اچھی چیزیں سیکھیں اور پھر اُس پر عمل کریں۔ اِس کے علاوہ اگر کسی طالبِ علم کو اپنے تعلیمی نصاب کا پڑھنا ہو تو وہ کتاب سے پڑھنے کے بجائے ای بُکس اور آن لائن اسٹیڈیز کو ترجیح دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہئ سندھ کے شعبے آرٹ اینڈ ڈیزائن میں ڈیجیٹل لائبریری متعارف کرا دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں کے طالبِ علموں میں پڑھنے کا جزبہ مزید اور بڑھ گیا ہے۔
اَب اگر ہم ڈیجیٹل بُکس کے فوائد کی بات کریں۔ تو ڈیجیٹل بُکس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمیں کہیں بھی کسی بھی وقت کسی بھی چیز کے بارے میں پڑھنا ہو تو وہ ہم کم وقت میں با آسانی پڑھ سکتے ہیں۔کیا پتہ اُس موقعے پر ہمیں اُس چیز کے بارے میں وہ کتاب نہ مل سکے جس کے بارے میں ہمیں پڑھنا ہو تو ایسے موقعوں پر ڈیجیٹل بُکس بہت کام آتی ہیں۔ اِس کے علاوہ ڈیجیٹل لائبریری کا یہ فائدہ ہے کہ ہم بیک وقت کئی چیزوں کے بارے میں کئی کتابوں سے ایک ہی وقت میں پڑھ سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ڈیجیٹل اِسکرین کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ پہلے جو کتابیں کسی وجہ سے انسانوں کی پہنچ سے دور تھیں اَب وہی کتابیں باآسانی انسانوں کی پہنچ میں ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ جو کتابیں بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے ہم نہیں خرید سکتے تھے لیکن اَب ڈیجیٹل بُک کی صورت میں بہت ہی مناسب قیمت میں وہ کتابیں خرید سکتے ہیں۔
اِس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل اسکرین کے نقصانات کی بات کی جائے تو وہ بھی کم نہیں ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔ ڈیجیٹل اسکرین کا سب سے پہلا اور بڑا نقصان یہ ہے کہ اگر زیادہ دیر تک ڈیجیٹل اسکرین کا استعمال کیا جائے تو انسان کو جسمانی اورذہنی طور پر تھکن ہونے لگتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان ڈیجیٹل اِسکرین سے جو کچھ بھی پڑھتا وہ کچھ عرصے بعد بھول جاتا ہے۔ ذہنی اور جسمانی تھکن کی وجہ سے پڑھائی کے دوران دماغ اِدھر اُدھر بٹنا شروع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی پڑھائی پر مکمل توجہ نہیں دے پاتا۔ ڈیجیٹل اسکرین کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ ڈیجیٹل اسکرین سے نکلنے والی کرنیں انسانی آنکھوں پر نظر انداز ہوتی ہیں جس سے بینائی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل کم عمری میں ہی لوگوں کے چشمے لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر غیور عالم کا یہ کہنا ہے کہ آج کل چشمے لگنے کی سب سے بڑی وجہ موبائل فونز وغیرہ کا بے جا استعمال ہے۔ اِس کے علاوہ سب سے اہم نقصان یہ ہے کہ ای بُکس کی وجہ سے لوگوں نے کتابوں سے دوری اختیار کرلی ہو جس کی وجہ سے کتابوں کی خرید و فروخت میں بھی کمی آگئی ہے۔
ڈیجیٹل اسکرین سے بلکل یہ مطلب نہیں کہ ہم کتابوں کو بھول جائیں۔ بلکہ ہمیں دونوں چیزوں کو مدِ مقابل رکھنا چاہیئے۔ کیونکہ موجودہ دور میں ہر کوئی اِس قابل نہیں کہ وہ ڈیجیٹل اسکرین متحمل کرسکے۔ لہذا اشاعتی اداروں کو چاہیئے کہ وہ دورِ جدید میں دونوں کتابی اور ڈیجیٹل صورت میں کتاب شائع کرے اور اس کے علاوہ تعلیمی اداروں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے اداروں میں ڈیجیٹل لائبریری قائم کریں تاکہ نوجوان شاگرد اِس جدید ٹیکنالاجی سے مستفید ہوسکیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیئے کہ وہ خود بھی کتابوں سے منسلک ہوں اور اپنے بچوں کو بھی کتابوں سے منسلک رکھیں تاکہ آج کل کتابوں سے جو دوری ہوگئی ہے وہ کم ہوسکے۔
Comments
Post a Comment