Sadia روشنی میں کس پر کیا گزری۔۔۔


روشنی کی روشنی میں کس پر کیا گزری۔۔۔۔
کاشان سکندر ،  سعدیہ شمیم
 شعبہ ذرائع ابلاغ عامہ کے طالبعلم کے طور پر دو سال تو صرف تھیوری پڑھتے ہی گزرگئے، جب بی ایس پارٹ تھری میں پہنچے پریکٹیکل ورک کی باری آئی۔ سنئیرز سے نیوز پیپر اینڈ میگزین پراڈکشن کے استاد سر سہیل سانگی کا خاکہ ایک ہٹلر کی طرح کے شخص جیسا کر کے پیش کیا تھا۔  ہمیں ڈر بھی ہونے لگا مگر خوشی بھی ہوئی کہ چلو کچھ سیکھنے کو تو ملے گا کیونکہ اب ہم ایک سینئر صحافی کے شاگردی میں تھے۔
 جنوری میں جیسے پارٹ تھری کی کلاسیس کا آغاز ہوا سہیل سانگی صاحب سے ملاقات ہوئی، پہلے لیکچر میں روشنی اخبار کے کام کے بارے میں تفصیلی بتایا، خوشی ہوئی کہ ہم بھی اب پروفیشنل صحافیوں کی طرح اخبار کے لئے کام کریں گے۔
روشنی کا ایڈیٹوریل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ جبکہ باقی طلبہ کو بیٹ رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ہر طالب علم کو  یونیورسٹی کا ایک شعبہ بطور بیٹ الاٹ کیا گیا۔ بیٹ رپورٹر بتاتے تھے کہ انہیں دوسرے ڈپارٹمنٹ کے لوگوں کی باتیں بھی سنُی پڑتی تھی۔جب پہلی دفعہ بیٹ لینے گئے تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کے نیوز کو ن دیے گا۔۔کبھی کوئی بولے ان صاحب کے پاس جاؤ کبھی اُس کے پاس،آخر کار تھک ہار کر کوئی فیکلٹی میمبر ایسا ملتا جس کے پاس سے خبر مل بھی جاتی۔ جب خبر چیک کرانے آتے  تو سر کا جواب کسی ساس سے کم نہیں ہوتا تھا کہاس میں نمک کم ہے اس میں مرچی کم ہے۔۔سرکہتے تھے کہ”اس میں نیوز کہاں ہے۔۔ بیٹا خبرہوتی نہیں ہے خبربنانی پڑتی ہے آپ کو کوئی پلیٹ میں خبر پیش نہیں کریگا آپکو خود خبرکی تلاش کرنی ہوگی اور پھر ہم دوبارہ جاکر خبرلانی پڑتی۔“ تجربہ ہوا کہ ڈیسک پر کام کرنے کے بجائے فیلڈ میں کام کرنے کا اپنا مزہ ہے۔ایک کیمرہ اور مائیک کی کمی تھی ورنہ ہم کسی چینل کے رپوٹر سے کم نہیں تھے۔کچھ طلبہ تو جھوٹی خبر بنا کردیتے تھے پر سانگی صاحب سے کوئی دو نمبری کر جائے یہ ہونہیں سکتا۔ 
خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی ہمارے نام ایڈیٹوریل بورڈ  میں آئے۔ عملی پیشہ ورانہ کام کے لیے نئے لوگوں پر مشتمل گروپ بنائے جن کے ساتھ اتنی بات چیت بھی نہیں تھی ہمیں اب اپنے گروپ سے نکل کر ددسرے لوگوں کے ساتھ کام کرنا تھانئے گروپ میں کام کرنے اور ان کے بارے میں جاننے کا مو قع ملاجوہم طالبعلم کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا گروپ میں کام کرنے سے ہم دوسروں کی رائے سنتے بھی ہیں اور ان سے اختلاف کے ساتھ ساتھ ان کی رائے کو مانتے بھی ہیں۔ 
روشنی اخبار کے لئے اپنے مختلف اصناف پر نصاب کا حصہ تھا، ان اصناف کا موضوع منظور کروانا، خاصا مشکل مرحلہ تھا۔ پہلی دفعہ موضوعات کی منظوری  کے موقع پر میڈیا لیب کے باہر ا بھیڑ لگی رہتی تھی،جس کا  کسی صنف  کا موضوع منظور ہو جاتا وہ عظیم مانا۔ لیکن جذباتی طورپر اُس وقت دھچکا لگاجب پہلا موضوع لے کر گئے اور یہ سوچا کہ ہمارا موضوع تو آرام سے منظور ہوجائیگا۔ 
 لیکن  ایسا کم ہی ہوتا تھا۔مزے کی بات یہ ہے کہ آہستہ آہستہ آدھی کلاس کے ساتھ وہ ہی ہوا جیسا ہماری ٹیم میں سے بعض کے ساتھ ہوا تھا تو دل کوتھوڑی تسلی مل گئی۔پھر جب تک اس مرحلے سے دو تین بار گزر نہیں ہوا ہر کسی کواسی بات کا ڈر ہوتا تھا کے کہیں پھر سے سر اس ٹاپک کو رجیکٹ نہ کر دیں کہ”بیٹا اس میں نئی بات کیا ہے،لوگ اس کو کیوں پڑھیں،نہیں دوسرا ٹاپک لاؤیہ تو بہت خشک ٹاپک ہے بیٹا، کسی خاص نقطے پر فوقکس کرو۔“ 
اب منظور شدہ موضوع  پر  فیچریا آرٹیکل لکھنے  اور مقررہ ڈیڈ لائین پر ای میل کرنا تھا۔ لگتا تھا کہ سر سانگی ای میل کاانتظار  میں بیٹھے رہتے تھے اورکچھ ہی دیرمیں ایک بم گرتا”ر یفر بیک“۔  ای میل میں لکھے ہوئے سر کے کمنٹس آج بھی یاد ہیں کہ”آپ اسے رپوٹنگ بیس کریں وہاں بیٹھے لوگوں سے بات کریں ان کی کیا رائے ہے اس بارے میں وہ لکھیں“۔ ان سارے مراحل میں بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا اور پھرہمارے کام میں مزید بہتری بھی آئی۔ سر ہمارے تحریریں اس طر ح دیکھتے تھے جیسے ہم ابھی تک اسکول  کے طالب علم ہیں۔
  سچ بات تو یہ ہے کہ ہم اپنا لکھا ہو ا خود اتنی غور سے نہیں پڑھتے اور سر پڑھ کر فورا جواب دیتے اور غلطیا ں بتاتے تھے۔ ایک اہم مرحلہ آن لائن بیستی کا جی ہاں بیستی کا بھی رہا۔ اگر دو بندوں کے سامنے ہو تو دکھ ہوتا ہے لیکن اگر بیستی پوری کلاس کے سامنے ہو اور وہ بھی آن لائن تو زیادہ دکھ ہوتا ہے۔سانگی صاحب نے اپنی روایت کو جاری رکھتے ہوئے ہر سال کی طرح اس سال بھی ایک بلاگ بنایا جہاں پر ہر ایک اسٹوڈینٹ کی کار کردگی کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔سر ہمیں ہماری غلطیاں ای میل کرکے ہی بتاتے تو گھر کی بات گھر میں رہ جاتی تھی کہ کسی کو پتا نہیں چلتا تھا مگراب سر گھر کی بات گھر میں نہیں رکھتے بلکہ سب کی غلطیوں کی اطلاع بذریعہ بلاگ پر پوسٹ کر کے کرتے۔سہیل صاحب کا کہنا تھا کہ یہ عمل اس لئے کیا جاتا ہے کہ آپ کا ریکارڈ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوسکے کہ اگر کل آپ کے بچے بھی ادھر پڑھنے آئیں تو وہ اپنے ماں یا باپ کی کرتو تیں دیکھ سکیں کہ انھوں اپنے طالبعلمی کے دور میں کتنے کامیابوں کے جھنڈے گاڑے تھے۔آن لائن بیستی سے بچنے کے لئے کچھ طالبعلم کسی کو نہیں بتاتے تھے۔ ہر کلاس میں کوئی پھپھو ضرور ہوتی ہیں جو اپنی غلطیوں کو نہیں بلکہ دوسروں کی غلطیوں پر زیادہ نظر رکھتی ہیں جس کے ذرعیے غلطیاں ان کی زبان زدِعام ہوتی تھیں۔ سر سہیل نے تو ان اسٹوڈنٹ کو بھی پڑھنے اور لکھنے پر مجبور کر دیا جو صرف حاضری کے لیے آتے تھے۔جب ان سب کے بعد موضوع کی سلیکشن ہوتی تھی کہ اس بارروشنی اخبارمیں میں کیا شائع ہونے جا رہا ہے اور پہلی دفعہ فیچر شائع ہوا تو اس میں اپنا نام اور کام دیکھ کر بہت خوشی ملی۔اس اخبار کی تصویر لے کر اسٹیٹس لگایا کہ ہاں بھئی یہ ہے ہماری پہلی کامیابی،جب لوگوں نے اور گھر والوں نے پذیرائی کی تو بہت اچھا لگا۔
ٓٓ ایک سال روشنی اورشعور میں کام کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہا اور سب سے اہم بات اس میں ہمیں باقاعدگی سے منگل اور بدھ کو جامعہ آنے کا پابند بھی بنایا،ہم بھلے ہی باہر ہو یا کسی تقریب میں ہو سر سہیل کے ایک پیغام پر سب کام چھوڑ کر سر کے بتائے ہوئے کام کو پورا کرتے۔ ہمیں سر سانگی کے ساتھ لیب میں کام کرتے ہوئے انکی ڈانٹ اور ہنسی خوشی اپنی بیستی کروا کر گزارے وقت ہمیشہ یاد رہے گا۔یہ سب نہیں بھولیں گے ہم جب تک ہے جان۔۔۔                                                                                                 َِِِ     َ

Comments

Popular posts from this blog

نياز اسٽيڊيم حيدرآباد Chhachhar group

Raheel Jarwar

ameet kolhi sindhi feature