Arham Khan - دستکاروں سے با ت چیت
گروپ نمبر: 12
Group no 12 ...
Topic (Hyderabad main Diyaldas Club k nazdeek ki jany waly Dastkari)...
Group members.
1- Faisal Rehman 2k17/MC/29
2-Arham khan 2k17/MC/18
3- Sadia Younas 2k17/MC/137
نام: ارحم خان
رول نمبر: 2K17-MC-18
ٹوپک: حیدرآباد دیالداس کلب کے نزدیک کی جانے والی دستکاری
دستکاروں سے با ت چیت
ہنر بادشاہ اور تعلیم وزیر ہے یہی سوچ ہے جو لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ غریبی انسانیت پر سر چڑھ کر بولتی ہے۔ دستکاری وہ واحد پیشہ ہے جہاں مصنوئی پرندوں کی مانند خوبصورت نقش ونگاری کونہ کسی انڈسٹری میں تیار کیا جاتا ہے نہ کسی والڈ وائٹ کمپنی میں بلکہ گھر کی خوبصورت تیزئین و آرائیش کے لیے یہ اشیاء دیہی علاقوں کی خواتین خوداپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں۔ دستکاری کا کام کرنے والے جو کہ خود ۰۸سال قبل سندھ کے ضلع تھر سے آئے تھے، حیدرآباد دیالداس کلب کے سامنے دستکاری کا پیشہ سر انجام دے رہے ہیں،جن کے آباؤاجداد کا تعلق راجھستان سے تھا۔ہم نے جب ان دستکاروں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ دستکاری کا سازو ساماں پنجاب سے لایا جاتا ہے لیکن سندھ کی ثقافت کی چھاپ یہاں لگائی جاتی ہے، مختلف رنگوں کی نقش و نگار اپنے فن سے تیار کرنے کے بعد فروخت کی جاتی ہیں۔ ان نقش ونگاری میں مختلف مصنوئی پرندے بنائیں جاتے ہیں۔ دستکاری کے پیشے میں کا م کرنے والے سوریش کمار کے مطابق دو سال قبل دستکاری کا سامان جو کہ ایک پردے کا دستہ فی فٹ ۰۸ سے ۰۰۱ روپے پڑھتا تھا۔ جس کو مزید نقش ونگاری سے خوبصورت بنایا جاتا تھا اور اُسکی مالیت ۰۰۳ ہو جاتی تھی،لیکن اب وہ فی فیٹ دستہ ہمیں ۰۰۳ کا پڑ ھتا ہے جو کہ مزید کام ہونے کے بعد ملیت کے اعتبار سے ۰۰۷ روپے فٹ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دن بھر میں ہماری درجن کے قریب مختلف چیزیں تیار ہوجاتی ہیں،دستکاری کا یہ پیشہ زبوں حالی کاشکارہونے کی سب سے بڑی وجہ وسائل میں کمی ہے۔ ہم اگر گھر کی تزئین و آرائش کے لیے پردہ، سیندری،سٹول،جھولا، بناؤ سنگھار کے لیے شیشہ تیار کربھی لیں،لیکن پھر بھی ہم خریدار کا انتظار یہی کرتے ہیں۔ وسائل کی کمی کے وجہ سے دوسری دوکانوں یا برآمد کرنے کے لیے دوسرے شہروں کا رخ نہیں کرسکتے۔
ان لوگوں کی اس پیشے سے وابستگی:
راہول جیت جوکہ خود ۵۶ سال قبل حیدرآباد دیالداس کلب کے سامنے دستکاری کا پیشہ اپنائے ہوئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہنر بادشاہ اور تعلیم وزیر ہے یہ ہمارے باپ دادا کا قول ہے۔ جنھونے ہمیں ہنر سکھایا، اور اس بات کی تلقین بھی کی ہنر سیکھوگے تو بادشاھ بنوگے اور تعلیم حاصل کروگے تو کسی سرکاری یا نجی محکمے میں غلام ہی رہوگے۔اسی طرح اشوق کمار جوکہ پچھلے ۰۱ سال سے دستکاری کا کام سرانجام دے رہے ہیں ان کے مطابق اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی ہم غلامی کی زندگی میں جینا نہیں چاہتے، ہم غیر مذہب کو حقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے لیکن پھر بھی معاشرہ ہمیں زات، رنگ روپ کم تر سمجھ کر حقیر جانتا ہے۔ہم بھی معاشرے میں آزادنہ رہن سہن کے لیے خوا ہئش رکھتے ہیں۔ ہم بھی دوسروں کی طرح اپنے حق لینا چاہتے ہیں لیکن غریب کی مجبوری کا سُنا تو دور کی بات ہے آج تک کوئی حکومتی نمائندہ ہمارے اس کاشتکاری کے ہنر کو سر اہانے نہیں آیا،برعکس اسکے اگر ہمارے بچے جن اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں وہاں کولی یا نیچلی زات کے نام سے جانے جاتے ہیں ان بچوں سے غیر منسفانہ روایا رکھا جاتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہمارے بچے تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم رہ جا تے ہیں۔ اگر تعلیم حاصل کر بھی لیں تو ایسے کئی بچے ہیں جنھیں سرکاری ملازمت تونہیں کم ذات کا ہونے کے باعث سرکاری ملازم کے گھر چوکیدار یا آیا کی ملازمت کرنی پڑھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی بچوں کا ہنر سیکھاتے ہیں اور انھیں اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ سندھ کی ثقافت کاہنرزاوال پزیر نہ ہو۔ دستکاری کا یہ پیشہ آباؤ اجداد کے عطا کرتے ہنر کے باعث ہے یہی وجہ ہے کہ دستکاری کا یہ ہنر پس مانندہ نہیں ہوسکتا،اگر چہ دورِ جدید میں الیکٹرونک پرینٹنگ کی مانگ بڑھ گئی ہے لیکن ہاتھ سے بنے خوبصورت نقش کی پہچان الگ ہی دیکھی جاسکتی ہے۔جہاں ریڈی میٹ کاڑھائی نے نقش و نگار ی کی خوبصورتی کو مدھم کردیا ہے وہی دستکاری کا ہنر آج بھی معقول حیثیت رکھتا ہے۔آج کے جدیدد ور میں بھی دستکاری کی اہمیت سے آشنا لوگ گھر کی تیزئین وآرائش کے لیے اپنی من چاہا چیزیں خریدکر لے جاتے ہیں۔ جن میں چاٹائیاں،جھولا، دیواری نمائش کے لیے پردا،سیندری،اور بناوں سینگھار والے شیشے شامل ہیں۔
دستکاروں کی معاشی زبوں حالی
سرکاری سطح پر عدم توجہ کے باعث زبوں حالی کا شکار ہونے والا یہ د ستکاری کا ہنر سندھ کی ثقافت کی تنزلی کی وجہ بھی بنتا جارہاہے دستکاروں کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمیں رہنے اور کام کرنے کے لیے سڑک پر جگہ دی ہوئی ہے ہمارا پیشہ کم آمدنی کا ضرور ہے لیکن کسی کی چاپلوسی کرنے کی عزت گوارا نہیں کرتی۔اگر ہمیں اپنی مجبوریوں،وسائل کی کمی، اور مسائل کے بہتات پر حکومت سے اپیل کرنے کا خیال آبھی جا تا ہے تو ہم اس خیال کو یہ سوچ کر رد کردیتے ہیں کہ جوسرکاری ملازم ہیں وہ خود آئے دن اپنی تنخواہوں کی ادئیگی کا رونا روتے اور پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہیں تو ہم نیچلی ذات والے ہماری سنوائی کیوں کر ہوگی؟،مہنگائی کے باعث دستکاری کی کاڑھائی،بنائی کا سامان بھی مہنگا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے دستکاری اپنا پیشہ چھوڑ کر فیکڑیز میں کام کرنے پر مجبور ہیں یہ بھی وجہ ہے کہ دستکاری کی کاڑھائی بنائی کا کام مدھم ہوتا جارہا ہے ترقی پزیر قوموں کی یہ پہچان ہے کہ وہ اپنی ثقافت کوکبھی تنزلی کا شکار نہیں ہونے دیتی دنیا میں پنپنے کے لیے اپنی ثقافت کو مستحکم رکھنا ضروری ہے سندھ کی ثقافت کو زوال سے بچانے کا سب سے بڑھ کر زریعہ ہے کہ دستکاری کے عمل کو جاری و ساری رکھا جائے۔
Comments
Post a Comment