ملازمت خواتین کی ضرورت Sobia Awan
Subject: Newspaper & Magazine Production
Practical work carried under supervision of Sohail Sangi
Sobia Awan
ملازمت خواتین کی ضرورت
صوبیہ اعوان
ہمارے معاشرے میں عام طور پر خاتون کوصنف نازک کہا اور سمجھا جاتا ہے۔گھر کی زینت سمجھی جانے والی عورت کیلئے عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ یہ چار دیواری میں ہی اچھی لگتی ہے۔قدامت پسند معاشرے میں ایک عورت کام سجنا،سنورنا،بچے پیدا کرنا اور تمام عمر گھر کی دیکھ بھال کرنا ہے۔یہی نہیں زندگی کے سنجیدہ،سماجی،معاشی اور معاشرتی معاملات سے بھی اسے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔پاکستان جیسے مہنگائی کے ملک میں گھریلو حالات غربت،تنگ دستی،محرومیوں اورمہنگائی کے ہاتھوں مجبور عورت حالات بہتر کرنے کیلئے ملازمت کرنے کا سوچتی ہے۔
دنیا کے بیشتر علاقوں میں خواتین مردوں سے کم رسمی تعلیم حاصل کرتی ہیں،اور اسی کے ساتھ ہی خواتین کا اپنا علم،قابلیت اورمقابلہ کرنے کا طریقہ کار اکثر غیر رسمی تسلیم شدہ ہوتا ہے۔
خاتون روزگار کی تلاش میں گھر سے نکلتی ہے وہاں بھی اسے کئی پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
ملازمت کرنا آج کے اس دور میں ہر ایک کی ضرورت بن گئی ہے۔ ہر گھر میں ایک مرد کا ملازمت کرنا اخراجات پورا نہیں کر پاتا، کم سے کم خرچ بھی کیا جائے تب بھی ضروریات پوری نہیں ہوپاتیں۔ کوٹری کے رہائش پپزیرعابد فاروق کا کہنا ہے میں ایک رکشہ ڈرائیور ہوں اور میرے ۵ بچے ہیں،میری آمدنی اتنی نہیں ہوپاتی کہ میں بچوں کی اسکول ٹیوشن کی فیس سے لے کر گھر کے باقی اخراجات پورا کرسکوں جس کی بناء پر میں بہت پریشان رہتا تھا کہ سب کیسے سنبھالوں یہ حالات دیکھ کر میری بیگم نے ایک کپڑے بنانے کی فیکٹری میں ملازمت شروع کی اور اخراجات اٹھانے میں میرا ساتھ دیا تب ہمارے حالات کچھ بہتر ہوئے۔
اسی طرح ایک خاتون کو گھر کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی بہتر انداز میں سنبھالنا پڑتا ہے۔
، اگر ایک بیوی ہے اور وہ صرف گھر کے کاموں تک محدود ہے تو کبھی نہ کبھی اس کا شوہر غصہ میں ضرور یہ کہہ جاتا ہے کہ آپ کو کیا معلوم کام کیسے ہوتاہے۔ آپ تو آرام سے گھر بیٹھی ہو یہ باتیں سن کر بیوی احساس کمتری کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔ کہ وہ کچھ نہیں کرسکتی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہے۔ا سی طرح ایک سنگل ماں کو اپنے بچوں اور اپنا پیٹ پالنے اور دیگر اخراجات کو چلانے کیلئے ملازمت کرنا ایک ضروری ہوتاہے۔
لیکن یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ آج کل ہماری خواتین کام،ملازمت کرنے والی خواتین بن رہی ہیں وہ اب مردوں پر منحصر نہیں کرتی،ان کا کردار آہستہ آہستہ بلکل تبدیل ہو رہا ہے۔وہ اب صرف مائیں بیٹیاں وغیرہ نہیں ہیں صرف۔وہ گھروں سے نکل آئی ہیں وہ اب ڈرپوک نہیں رہی۔وہ سرکاری اور غیر سرکاری دونوں کاموں میں حصہ لے رہی ہیں۔وہ قومی ترقی میں حصہ ڈال رہی ہیں۔ وہ مسلح افواج میں حصہ لے رہی ہیں اور پورے دل سے اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہی ہیں۔کاروبار بھی کر رہی ہیں۔پیسہ کما رہی ہیں اور خاندانی ذمہ داری کو بھی بانٹ رہی ہیں۔
گھر یلو کاموں کی مزدوری جیسے کے گھروں کی صاف صفائی،کھاناا پکانا،آیا کے طور پر بچے سنبھالنا سے لے کر گھر بیٹھ کر دستکاری کرنا،شادیوں میں لگانے والے کاغذ کے مصنوئی پھول وغیرہ بنانا میں خواتین بھرپور حصہ دار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سبزی منڈی میں بھی خواتین سبزی کا ٹھیلہ لگاے،سبزی فروش کرتے نطر آرہی ہیں۔ اس کے علاوہ شہر کوٹری کی رہائش پزیر ایک خاتون کم تعلیم اور کم ہنر ہونے کے باعث رکشہ ڈرائیور ہے اور دن بھر کی ڈیھاڑی سے اپنا اور اپنے خاندان کا نظام سنبھال رہی ہ۔ یہ بظاہر تو آسان کام ہیں حقیقتا مشقت بھرے ہیں اور اجرت مرد کے مقابلے بہت کم ہے۔
دیہی علاقوں میں شہری علاقوں کے مقابلے میں خواتین کی تقریبا دگنی تعداد افرادی قوت میں شامل ہیں۔ بلوچستان اور سرحد کے مقابلے میں دیہی سندھ اور پنجاب میں خواتین کی کہیں بڑی تعداداجرتی کام میں شامل ہے۔دیہی علاقوں میں زیادہ تر عورتیں زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں اورسندھ اور پنجاب ملکی زراعت کا اہم حصہ ہیں۔
لیکن خواتین کیلئے اپنی پیشہ ورانہ معاشی ذمہ داری ادا کرناعام طور پر حوصلہ افزا رد عمل حاصل نہیں کرپاتا۔بہت سے علاقوں اور خاندانوں میں لڑکیاں اب بھی گھریلو فرائض تک محدود ہیں،ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ایک دن لڑکی کو گھریلو خاتون بننا ہے۔ان کے خیال میں وہ کسی دفتر میں یاکسی ادارے میں کام نہیں کرسکتی۔وہ گھر کے کام کاج کیلئے پیدا ہوئی ہیں کھانا بنانا،بچے سنبھالنا،گھر کا انتظام سنبھالنا۔ عکام کاج کی جگہیں زیادہ تر مردوں کی سمجھی جاتی ہیں، شہر ہو یا دیہات ملازمت کرتی خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور ان کے بارے میں غلت افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔اور راہ گزرتے مردوں کی طرف سے آوازیں کشی جاتی ہیں، کچھ سہم کر گھر بیٹھ جاتی ہیں لیکن کچھ بہادر خواتین ان تمام حالات کا مقابلہ کر رہی ہیں اور معاشرے میں اپنی ایک پہچان بنا رہی ہیں۔
جو خواتین شوق کی بنا پر ملازمت کرنا شروع کرتی ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ تعلیم حاصل کی ہے تو کچھ ناکچھ کیا جائے۔ ملازمت کرتے کرتے وہ ان کی بھی ضرورت بن جاتی ہے،
آج کے دور میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن کچھ خواتین اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ وہ تمامحسوس کرتی ہیں کہ گھر ان کا اصل میدان کار ہے،گھر میں رہنے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں،اور نوکری کا انتخاب خواہش کے طور پر نہیں بلکہ ضرورت کی بنیاد پر کرتی ہیں۔ ملازمت کرتی خواتین کو بیک وقت میں دو محاذوں سے لڑنا پڑتا ہے ایک تو گھر کی ذمہ داری دوسراملازمت کی۔
چند مرد حضرات کا کہنا ہے کہ ان کی بیگم کی ملازمت کرنے سے گھر کا پورا نظام تہہ وبالا ہوجاتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ اس مہنگائی کی دور میں خواتین کی ملازمت کے بغیر گھر کے اخراجات پورے کرنامشکل ہے۔
معاشرے میں تبدیلی کے حصول کیلئے ایسی پالیسی اور پروگرام کے اقدامات کی ضرورت ہے جو خواتین کو روزگار اور معاشی وسائل کو محفوظ بنانے،گھریلو کاموں کے سلسلے میں اپنی انتہائی ذمیداریوں کو ختم کرنے تعلیم اور مواصلات کے موثر پروگراموں کے ذریعے معاشرتی بیداری کو بڑھایا جائے۔
خواتین کی ملازمت میں ایک بڑا چیلنج ان کو ہراساں کرنا ہے۔یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہونے والا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے خواتین کو بعض اوقات ملازمت چھوڑنا پڑجاتی ہے۔ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے،اس درندگی سے نہ خواتین محفوظ ہیں نا ہی بچیاں۔
یہ بھی کڑوہ سچ ہے کہ ہماری خواتین ضرورت کے تحت ملازمت کرتی ہیں تو انہیں قدم قدم پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہر مقام پر خواتین سے زیادہ مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے،ملک میں ۴۱ فیصد خواتین ایسی ہیں جنہوں نے صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہے۔ شعبہ تعلیم میں خواتین کی شمولیت بہت زیادہ ہے، گر کچھ عرصے میں نجی اسکول کی تعداد میں اضافے کی وجہ تعلیم یافتہ بنگ ٹیچرز ہیں۔لہذا اگر خواتین کو دیگر شعبے میں بھی مواقع دئے جائیں تو بہتری آسکتی ہے۔
لیکن خواتین مردوں سے زیادہ بہادر ہیں اور ان کی بامقابل کام کرسکتی ہیں۔عرصہ دراز سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ خواتین کا مخصوص کردار کیا ہے،،؟
ماضی کی خواتین مختلف پہلووں سے مردوں سے کمتر تھیں۔ لیکن آج کی خواتین مردوں کے بامقابل مضبوط اور قابل ہیں۔خواتین نے لوگوں کے دقیانوسی تصور (کچھ نہیں کرسکتی)کو ختم کرنے کیلئے بہت جدوجہد کی ہے۔موجودہ دور میں خواتین کی پر اعتمادی انہیں کامیابیوں کی طرف لے جارہی ہے۔
لہذا اب سب کو اپنی سوچ کو ختم کرنا چاہے کہ خواتین کو ملازمت کرنے کے بجائے صرف گھر سنبھالنا چاہیے۔ملازمت کرنے والی خواتین کے مسائل پر بھی گفتگو ہونی چاہئے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے معاشرے کی تربیت ضروری ہے۔معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں جبکہ مرد اب تک خواتین کو اپنے برابر تصور نہیں کرتے۔ لہذا حکومت کو خواتین کے روزگار سے متعلق تمام فرق عدم مساوات کو دور کرنے اور محفوظ آمدنی والے ملازمت کے مواقع پیدا کرے،مساوی تنخواہ کو یقینی بنایا جائے ،تمام شعبوں اور پیشوں میں خواتین اور مردوں کو متوازن لایا جائے۔اور کمائی میں صنف فرق کو بند کیا جائے۔
خواتین کامیابی کے ساتھ ساتھ مردانہ صلاحیت رکھتی ہیں۔اس کے علاوہ یہ بہترین بات ہے کہ یہ کام کریں رقم کمائیں جیسا مردکرتے ہیں اگر چہ ماں ہو یا بیٹی،بیٹی ہو یابہن،بہن ہو یا بیوی ملازمت کے ساتھ گھریلو فرائض بھی نبھاسکتی ہیں۔ضروری ہے کہ خواتین کی بھی حمایت کی جائے تاکہ وہ صرف گھریلو ملازمت پر بیٹھنے سے زیادہ کام کرسکیں اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرسکیں۔
ّّّ
مردوں کی بادشاہی کی اس معاشرے میں خواتین کا چھا جانا اہم بات ہے۔خواتین کسی بھی شعبے میں کام کر
کے اپنے آپ کو منواسکتی ہیں بس پختہ ارادہ اور ہمت ہونا ضروری ہے۔٭
Comments
Post a Comment