Faisal - بدین شہر میں عطائی ڈاکٹر

Subject Creative writing
  نام :     فیصل الرحمٰن
رول نمبر:  2K17-MC-29
              بدین شہر میں عطائی ڈاکٹروں کی بھرمار
                                                  
                   انسانی اعتبار سے شعبہ صحت کافی اہمیت کاحامل ہے کیونکہ اس شعبے کا براہ راست تعلق انسانی صحت کی بحالی سے ہے۔اس وجہ سے اس شعبے سے وابستہ افراد پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنے تمام ترمفادات سے بالاتر ہو کر اس ذمہ داری کو نبھائیں کیونکہ اس شعبے سے وابستہ افراد کو عوام اپنا مسیحا سمجھتے ہیں،اور اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ ڈاکٹر ایک مسیحا ہوتا ہے۔ جو کہ تندرستی بخشنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔
                   لیکن کچھ لوگ اس شعبے کا نام استعمال کر کے اپنے ذاتی مفادات کے لیے عوام الناس کی زندگیوں سے کھیلنے لگھ جاتے ہیں اور خود کو ڈاکٹر کہلاوانے لگتے ہیں۔وہ حقیقت میں تو اس منصب کی اہمیت ہی نہیں جانتے اور چند ماہ یاہ چندسال کسی ہسپتال میں کمپونڈر کے طورپر کام کرنے کے بعد خود کو ایک ڈاکٹر سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں اور اپنی خود کی کلینک لگا کر لوگوں کی جان سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں،جنہیں عطائی کہاجاتا ہے۔
                  پاکستان میں ڈاکٹروں کی ایک تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسیشن  پی،ایم،اے کا دعویٰ ہے کہ صوبہ سندھ میں دو لاکھ سے زائد عطائی ڈاکٹرز موجود ہیں۔اسی طرح سندھ کے دوسرے شہروں کی طرح بدین شہر میں بھی دو سو سے زائد عطائی ڈاکٹرز اپنی کلینکس چلا رہے ہیں۔اگر ہر عطائی ڈاکٹر کے پاس روز دس مریض بھی آئیں تو اندازا  روزانہ بیس لاکھ لوگ عطائی ڈاکٹرز سے متاثر ہوتے ہیں۔اسی طرح بدین شہر میں بھی مختلف چھوٹی گلیوں، محلوں میں یہ عطائی ڈاکٹرز اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔  پاکستان میڈیکل ایسوسیشن  پی،ایم،اے کے مطابق سندھ بھر میں سرکاری طور پر آٹھ سو پچیس ۵۲۸  افراد پر ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی کمی اور حکومتی عدم توجہ کے باعث عطائی ڈاکٹرز  دن بدن بڑھ رہے ہیں۔
                    عطائی ڈاکٹرز زیادہ تر چھوٹے شہروں،کچی بستیوں اور دیہاتوں میں پائے جاتے ہیں۔یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں،اور بعض اوقات تو موت کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ان عطائی ڈاکٹروں کی فیس ستر ۰۷ سے ایک سو روپے تک ہوتی ہے جو کہ ایک عام مزدور اور غریب آدمی کی پہنچ میں ہوتی ہے۔جس وجہ سے اکثر غریب لوگ  ان کو اپنا مسیحا سمجھ کر علاج کرواتے ہیں۔کیونکہ پڑھے لکھے سند یافتہ ڈاکٹرز تو ان کی پہنچ سے ہی باہر ہوتے ہیں۔جبکہ پڑھے لکھے جرنل فزیشن ڈاکٹرز کی بات کریں توان کی فیس چارسو (۰۰۴)سے لے کر پندرہ سو(۰۰۵۱)تک ہوتی ہے۔اسی وجہ سے غریب لوگ ان عطائی ڈاکٹروں کا رخ کرتے ہیں اور انہیں اپنی جان سے کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ایک محنت کش مزدور جو کہ روزانہ چار سو(۰۰۴)  روپے پر کام کرتا ہے وہ کس طرح ان مہنگے ڈاکٹروں سے علاج کرواسکتاہے؟
                ابھی حال ہی میں بدین شہر کے ایک عطائی ڈاکٹر کی غفلت سے بدین کے ایک نوائی علاقے کے مزدور کسان کی ایک سال کی کم عمر بچی عطائی ڈاکٹر کے غلط انجیکشن لگانے سے دم توڑ گئی۔اسی طرح بدین کے قریب ایک گاؤں میں ایسا ہی ایک اور واقعہ پیش آیاجس میں عطائی ڈاکٹر رام چند نے بابو نامی نوجوان کو تیز بخار کی حالت میں انجیکشن لگا دیا۔جس سے نوجوان کی حالت ابتر ہو گئی اور بعد میں اسے بدین سول ہسپتال منتقل کیا گیاجہاں پہنچنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ تیز بخار میں انجیکشن لگنے سے نوجوان کی صحت خراب ہوئی۔جب ہم نے ایک عطائی ڈاکٹر شہباز سے بات کی تو اس کا کہنا تھا کہ ہم بھی مریضوں کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں ہیں۔ہم دور دراز گاؤں،دیہات میں مریضوں کو فرسٹ ایڈ دیتے ہیں۔جس سے شہر کے سرکاری ہسپتالوں تک پہنچنے میں مرضوں کو وقت لگتا ہے اور کافی تکلیف برداشت کرنی پڑ تی ہے۔کیونکہ حکومتی سطح پر گاؤں، دیہاتوں میں چھوٹی چھوٹی ڈسپنسریاں موجود نہیں ہیں جس سے دور دراز کے مریضوں کو فرسٹ ایڈ دیا جا سکے۔اس لیے یہ عطائی ڈاکٹرز بھی خود کو ان مریضوں کے لیے ایک مسیحا سے کم نہیں سمجھتے۔
                      لیکن وہی اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو عطائی ڈاکٹروں کی وجہ سے ہزاروں لوگ مضر صحت بیماریوں میں بھی مبتلا ہو رہے ہیں۔جن میں ٹی بی،ہیپاٹائیٹس اے،ہیپاٹائیٹس بی، ہیپاٹائیٹس سی  جیسی مضر صحت بیماریاں شامل ہیں۔یہ بیماریاں ایک ہی سرنج کو باربار متعدد مریضوں میں استعمال کرنے سے یا سرجری کر چند بنیادی آلوں کو بنا صاف کئے ایک سے زائد مریضوں میں استعمال کرنے سے پھیلتی ہیں۔بدین سول ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر شیر محمد نوریو کے مطابق ہسپتال میں آنے والے  ٹی بی اور ہیپاٹائیٹس کے مریضوں کی ہسٹری کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بیس سے پچیس فیصد افراد عطائی ڈاکٹروں سے متاثر ہوئے ہوتے ہیں۔ 
                  حکومتی سطح پر متعدد بار کاروائی ہونے  کو باوجود ان عطائی ڈاکٹرز کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔جبکہ حکومتی سطح پر بنائے گئے قانون کے مطابق پڑھے لکھے سند یا فتہ ڈاکٹرز کے علاوہ کسی کو بھی طبی نقصہ لکھنے یا مریض کو چیک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔قانون کے مطابق عطائی ڈاکٹر کو ایک سال کی سزا اور بھاری جرمانہ شامل ہے۔حکومتی سطح پر قانون کے باوجود بھی اس پر عمل نہیں کروایا جاتا۔بہر حال صحت جیسے مقدس شعبے سے کالی بھیڑوں کا صفایا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اور حکومت کو ان عطائی ڈاکٹرز کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Tando Wali Muhammad Hsitory and culture

نياز اسٽيڊيم رڪارڊ - سرمد علي کوھارو

Course outline topics