مٹی کے برتن اور کمہارزوال پزیر ہنر Fazal Hussain
گروپ نمبر؟
ریوائیزڈ اور کمپلائیڈ رپورٹ نہیں بھیجی
رپورٹر کا نام ہی ٹکسٹ فائیل میں نہیں
پروفائل آپ کا لکھا ہوا ہے یا قاسم کا؟ دونوں نے بھیجا ہے۔۔۔۔
فضل حسین تحقیقاتی رپورٹ
فضل حسین تحقیقاتی رپورٹ
مٹی کے برتن اور کمہارزوال پزیر ہنر
Topic name was also missing
پسِ منظر
مٹی اور انسان کا تعلق ازل سے ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی اپنی تخلیق بھی مٹی اور گارے سے کی گئی ہے۔ اسی لیے انسان کی مٹی سے رغبت ڈھکی چھپی نہیں۔ فصلوں کی ا!گائی ہو یا کھانا پکانے اور کھانے کے برتنوں کی تیاری سبھی کچھ پرانے وقتوں سے ہی مٹی کا ہی مرہونِ منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موئن جو دڑو ہو یا ہڑپہ یا پھر یونانی تہذیب کی باقیات ان میں مٹی سے نے برتن ہمیں ضرور ملتے ہیں جو اس بات کی علامات ہے کہ ہاتھوں سے بنائے گئے چکنی مٹی سے تیار کردہ برتن صدیوں سے ہی گھرداری کا حصہ رہے ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں جبک ہر چیز مشینوں کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے اور انسان بھی مشین بن گیا ہے۔ صنعتی ترقی اپنے عروج پر ہے۔ لوہے، اسٹیل، ایلمونیم اور شیشے سے تیار شدہ برتن لوگوں کی ضرورت بن گئے ہیں لیکن کاریگروں اور فنکاروں کے ہاتھوں سے بنی مٹی سے تیار کردہ اشیاء نے آج بھی لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ اشیاء کہیں کسی کی ضرورت ہے تو کسی کے لیے فن کا ایک نمونہ لیکن اتنا ضرور ہے کہ مٹکے ہوں یا صراحی، گملے ہوں یا غلک کسی نہ کسی شکل میں مٹی سے بنی اشیاء پرانے وقتوں سے اکثر گھروں کے سامان کا حصہ ہوتی ہیں۔ ان خوبصورت،کارآمد اور روایتی اشیاء کے تیار کرنے والے بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنی یہ اشیاء۔ سادگی اور محنت پسند یہ لوگ کمہار کہلاتے ہیں، یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کمہار انسانی تہذیب کا پہلا فن کار ہے، جس نے قدموں تلے روندتی مٹی کو اپنے فن سے خوبصورت شاہکاروں میں ڈھال کر حیران کردیا۔ ا نسل درنسل فن کو منتقل کرتے یہ کمہار بے شکل مٹی کو اپنی فنکاری سے وہ وہ صورتیں بخشتے ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جدید دور کی اس تیز روشنی میں مٹی کے دیے تیار کرنا، ریفریجریٹر کے مقابلے مٹی کے گھڑوں کو لا کھڑا کرنا بلاشبہ ان عظیم کمہاروں کا کام ہے۔ جو اس جدید دور کی موجوں کے آگے قدم جمائے کھڑے ہیں اور پرانی اور سادہ تہذیب کے نشان بنے ہوئے ہیں۔ مٹی سے برتن بنانا فن ہی نہیں ایک ثقافت بھی ہے۔
صوبہ سندھ کے شہر ٹنڈوالہیار کی کمہار کالونی میں قائم مٹی سے بنے برتن اور دیگر اشیاء کے 20 سے زائد کارخانے موجود ہیں، جو اندرون سندھ میں سب سے زیادہ ہیں۔ کسی وقت یہاں 350 سے زیادہ کارخانے موجود تھے، جو آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ یہاں پر مقیم زیادہ تر کمہار تقسیم ہند کے یہاں آباد ہوئے اور شروع سے ہی یہ کام کر رہے ہیں۔ کمہار کالونی میں مٹی کے ہنر میں تخلیقی حسن کے نقش کھوجتے یہ کمہار مسلمان بھی ہیں اور کچھ ہندو بھی کالونی میں موجود کمہار علی بخش کے مطابق یہ علاقہ پہلے شہری آبادی سے کافی دور تھا لیکن آبادی کی اکثریت یہاں بھی آباد ہوگئی ہے۔ کارخانے ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہاں رہنے والے لوگوں کے اعتراضات ہیں۔ بھٹہ جلانے کے لئے ہمیں گنے کا چھلکا، لکڑی کا بور گوبر سے بنے بنے اوپلے اور دوسری اشیاء کی ضرورت پڑتی ہے، کیونکہ مٹی کے برتن سکانے کے لئے زیادہ درجہء حرارت کی ضرورت پڑتی ہے، اسی وجہ سے آلودگی بھی پھیلتی ہے اور پھر یہ مٹی کا بھی کام ہے۔ کام ختم ہونے کی وہ سے یہاں رہنے والے اکثر کمہار یا تو دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے اور کچھ نے دوسرا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔
کمہاروں سے بات چیت
ئئی نئی چیزوں کی ایجاد، مشینوں کی تیاری اور بڑھتے کاروبار زندگی نے اس کام کو پیچھے دھکیل دیا ہے، کیونکہ دن رات محنت اور جدوجہد تمام تر مہارت استعمال کرتے ہوئے یہ کمہار جتنے برتن بناتے ہیں اتنے برتن اس مقصد کے لئے بنائی گئی مشین ایک گھنٹے میں تیار کر لیتی ہے۔ اسی لیے فن اور اس کے کاریگر تقریبا ختم ہوئے جا رہے ہیں۔ یہاں رہنے والے کچھ خاندان نسل درانسل اس فن کی آبیاری کرنے والے اس کو ذریعہء معاش بھی بنائے ہوئے ہیں اور اسے اپنے باپ دادا کا فن سمجھ کر مقدس بھی جانتے ہیں۔ کمہار محمد نبی جو 27 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ کام کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ یونکہ یہ ہمارے آباٖ اجداد کا کام ہے۔ ان کو بھی اس کا م میں دلچسپی تھی اور ہمیں بھی ہے۔ آئندہ ہمارے بچے بھی پڑھ لکھ کر اس کام کو آگے بڑھائیں گے، کیونکہ یہ ہمارا خاندانی کام ہے۔ ایک ضعیف العمر کمار ابراہیم علی جو کہ دو کارخانوں کے مالک ہیں، ان کے مطابق مٹی کے برتن بنانے کے لے سب سے اہم کام موزوں مٹی کا حصول ہوتا ہے، جسے ٹنڈوالہیار اور میرپورخاص کے مختلف علاقوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ مٹی نہروں اور زرخیز زمین سے بھی حاصل کی جاتی ہے۔ مٹی کی اقسام بھی ہوتی ہیں اور پاکستان میں ہر قسم کی مٹی پائی جاتی ہے۔ دوسرے ممالک سے یہ مٹی نہیں منگوائی جاتی۔ اینٹیں بنانے کے لئے الگ قسم کی مٹی استعمال ہوتی ہے۔ تندور بنانے کے لئے بھی دوسری قسم کی مٹی کا استعمال ہوتا ہے اور کھانا پکانے اور پانی پینے کے برتن بنانے کے لئے مخصوص قسم کی مٹی استعمال ہوتی ہے۔
لائی گئی مٹی کو پانی میں نرم کرنے، چھاننے، اس میں لیس پیدا کرے اور اسے خاص حد تک سکھانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں تین سے چار روز لگ جاتے ہیں۔ مختلف اشیاء کی تیاری کے لئے مختلف اقسام کی مٹی استعمال کی جاتی ہے۔ مٹی کے حصول اور دیگر مراہل سے گذرنے کے بعد تیار شدہ ملائم اور چکنی مٹی کو ہمارے یہ کمہار اور ان کے بچے مخصوص انداز میں پیروں تلے روندتے ہیں اور اسے پٹخیاں دے کر آٹے کی طرح گوندا جاتا ہے اور پھر جو شاہکار تیار کرنا ہوتا ہے اس کے وزن اور سائز کے مطابق مٹی کو کاٹ کر گول گھومتے چرخے پر رکھ دیا جاتا ہے جسے چک کہا جاتا ہے۔ اور پھر ان کمہاروں کی حیران کن مہارت اور اس سادہ سے چرخے کا ملاپ وہ فن پارہ تیار کرتا ہے کہ دیکھنے والے چکا چوند رہ جاتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان برتنوں میں سادگی بھی ہے اور شفا بی لیکن اب لگتا ہے کہ سمجھ کا فقدان ہے۔ پلاسٹک کے برتنوں کے مطاقب یہ تھوڑے مہنگی ہیں لیکن یہ ان بیکٹیریا سے محفوظ ہیں جو ان پلاسٹک میں پائے جاتے ہیں۔ مارکیٹ میں مٹی کے برتنوں کی مانگ میں کمی اور صحیح ا!جرت نہ ملنے سے کئی کمہار مفلسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کمہاروں کو اگر حکومتی سطح پر سرپرستی حاصل ہو جائے تو روزگار میں آسانی کے ساتھ ساتھ قدیم ثقافت کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس صنعت پر حکومتی سرمایہ نہیں لگتا، تھوڑے سے فنڈز اور توجہ سے اس صنعت کو مسائل کے دلدل سے نکالا جا سکتا ہے۔
Comments
Post a Comment