Group 11 مٹی کے برتنوں کی زوال پزیرانڈسٹری
ٹنڈوالہیار شہر ،ہاتھ سے بنے مٹی کے برتنوں کی مشہور انڈسٹری
گروپ نمبر:11
گروپ ممبران:
فضل حسین(2k17/MC/34): (پسِ منظر اور کمہاروں کے موجودہ حالات اور مسائل،کمہاروں سے بات چیت،پروفائل)
محمدقاسم :(2k17/MC/65)ٓٓٓٓٓٓٓٓٓ (آثار قدیمہ کی رپورٹ، آرکیالوجسٹ،شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائر یکٹر اور تاریخ دان سے ملاقات )
صوبیہ اعوان ((2k17/MC/96 (مٹی کے برتنوں کے فوائد،طبی ماہرین اور ڈاکٹر کی رائے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیقاتی رپورٹ
فضل حسین(2k17/MC/34): (پسِ منظر اور کمہاروں کے موجودہ حالات اور مسائل،کمہاروں سے بات چیت،پروفائل)
پسِ منظر اور کمہاروں کے موجودہ حالات اور ان کے مسائل:
مٹی اور انسان کا تعلق ازل سے ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی اپنی تخلیق بھی مٹی اور گارے سے کی گئی ہے۔ اسی لیے انسان کی مٹی سے رغبت ڈھکی چھپی نہیں۔ فصلوں کی ا!گائی ہو یا کھانا پکانے اور کھانے کے برتنوں کی تیاری سبھی کچھ پرانے وقتوں سے ہی مٹی کا ہی مرہونِ منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موئن جو دڑو ہو یا ہڑپہ یا پھر یونانی تہذیب کی باقیات ان میں مٹی سے نے برتن ہمیں ضرور ملتے ہیں جو اس بات کی علامات ہے کہ ہاتھوں سے بنائے گئے چکنی مٹی سے تیار کردہ برتن صدیوں سے ہی گھرداری کا حصہ رہے ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں جبک ہر چیز مشینوں کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے اور انسان بھی مشین بن گیا ہے۔ صنعتی ترقی اپنے عروج پر ہے۔ لوہے، اسٹیل، ایلمونیم اور شیشے سے تیار شدہ برتن لوگوں کی ضرورت بن گئے ہیں لیکن ہمکاریگروں اور فنکاروں کے ہاتھوں سے بنی مٹی سے تیار کردہ اشیاء نے آج بھی لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ اشیاء کہیں کسی کی ضرورت ہے تو کسی کے لیے فن کا ایک نمونہ لیکن اتنا ضرور ہے کہ مٹکے ہوں یا صراحی، گملے ہوں یا غلک کسی نہ کسی شکل میں مٹی سے بنی اشیاء پرانے وقتوں سے اکثر گھروں کے سامان کا حصہ ہوتی ہیں۔ ان خوبصورت،کارآمد اور روایتی اشیاء کے تیار کرنے والے بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنی یہ اشیاء۔
سادگی اور محنت پسند یہ لوگ کمہار کہلاتے ہیں، یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کمہار انسانی تہذیب کا پہلا فن کار ہے، جس نے قدموں تلے روندتی مٹی کو اپنے فن سے خوبصورت شاہکاروں میں ڈھال کر حیران کردیا۔ ا نسل درنسل فن کو منتقل کرتے یہ کمہار بے شکل مٹی کو اپنی فنکاری سے وہ وہ صورتیں بخشتے ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جدید دور کی اس تیز روشنی میں مٹی کے دیے تیار کرنا، ریفریجریٹر کے مقابلے مٹی کے گھڑوں کو لا کھڑا کرنا بلاشبہ ان عظیم کمہاروں کا کام ہے۔ جو اس جدید دور کی موجوں کے آگے قدم جمائے کھڑے ہیں اور پرانی اور سادہ تہذیب کے نشان بنے ہوئے ہیں۔ مٹی سے برتن بنانا فن ہی نہیں ایک ثقافت بھی ہے۔
صوبہ سندھ کے شہر ضلع ٹنڈوالہیار کی کمہار کالونی میں قائم مٹی سے بنے برتن اور دیگر اشیاء کے 20 سے زائد کارخانے موجود ہیں، جو اندرون سندھ میں سب سے زیادہ ہیں۔ کسی وقت یہاں 350 سے زیادہ کارخانے موجود تھے، جو آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ یہاں پر مقیم زیادہ تر کمہار تقسیم ہند کے یہاں آباد ہوئے اور شروع سے ہی یہ کام کر رہے ہیں۔ کمہار کالونی میں مٹی کے ہنر میں تخلیقی حسن کے نقش کھوجتے یہ کمہار مسلمان بھی ہیں اور کچھ ہندو بھی کالونی میں موجود کمہار علی بخش کے مطابق یہ علاقہ پہلے شہری آبادی سے کافی دور تھا لیکن آبادی کی اکثریت یہاں بھی آباد ہوگئی ہے۔ کارخانے ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہاں رہنے والے لوگوں کے اعتراضات ہیں۔ بھٹہ جلانے کے لئے ہمیں گنے کا چھلکا، لکڑی کا بور گوبر سے بنے بنے اوپلے اور دوسری اشیاء کی ضرورت پڑتی ہے، کیونکہ مٹی کے برتن سکانے کے لئے زیادہ درجہء حرارت کی ضرورت پڑتی ہے، اسی وجہ سے آلودگی بھی پھیلتی ہے اور پھر یہ مٹی کا بھی کام ہے۔ کام ختم ہونے کی وہ سے یہاں رہنے والے اکثر کمہار یا تو دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے اور کچھ نے دوسرا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔
کمہاروں سے بات چیت:
نئی نئی چیزوں کی ایجاد، مشینوں کی تیاری اور بڑھتے کاروبار زندگی نے اس کام کو پیچھے دھکیل دیا ہے، کیونکہ دن رات محنت اور جدوجہد تمام تر مہارت استعمال کرتے ہوئے یہ کمہار جتنے برتن بناتے ہیں اتنے برتن اس مقصد کے لئے بنائی گئی مشین ایک گھنٹے میں تیار کر لیتی ہے۔ اسی لیے فن اور اس کے کاریگر تقریبا ختم ہوئے جا رہے ہیں۔ یہاں رہنے والے کچھ خاندان نسل درانسل اس فن کی آبیاری کرنے والے اس کو ذریعہء معاش بھی بنائے ہوئے ہیں اور اسے اپنے باپ دادا کا فن سمجھ کر مقدس بھی جانتے ہیں۔ کمہار محمد نبی جو 27 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ کام کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے آباٖ اجداد کا کام ہے۔ ان کو بھی اس کا م میں دلچسپی تھی اور ہمیں بھی ہے۔ آئندہ ہمارے بچے بھی پڑھ لکھ کر اس کام کو آگے بڑھائیں گے، کیونکہ یہ ہمارا خاندانی کام ہے۔ ایک ضعیف العمر کمار ابراہیم علی جو کہ دو کارخانوں کے مالک ہیں، ان کے مطابق مٹی کے برتن بنانے کے لے سب سے اہم کام موزوں مٹی کا حصول ہوتا ہے، جسے ٹنڈوالہیار اور میرپورخاص کے مختلف علاقوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ مٹی نہروں اور زرخیز زمین سے بھی حاصل کی جاتی ہے۔ مٹی کی اقسام بھی ہوتی ہیں اور پاکستان میں ہر قسم کی مٹی پائی جاتی ہے۔ دوسرے ممالک سے یہ مٹی نہیں منگوائی جاتی۔ اینٹیں بنانے کے لئے الگ قسم کی مٹی استعمال ہوتی ہے۔ تندور بنانے کے لئے بھی دوسری قسم کی مٹی کا استعمال ہوتا ہے اور کھانا پکانے اور پانی پینے کے برتن بنانے کے لئے مخصوص قسم کی مٹی استعمال ہوتی ہے۔
لائی گئی مٹی کو پانی میں نرم کرنے، چھاننے، اس میں لیس پیدا کرے اور اسے خاص حد تک سکھانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں تین سے چار روز لگ جاتے ہیں۔ مختلف اشیاء کی تیاری کے لئے مختلف اقسام کی مٹی استعمال کی جاتی ہے۔ مٹی کے حصول اور دیگر مراہل سے گذرنے کے بعد تیار شدہ ملائم اور چکنی مٹی کو ہمارے یہ کمہار اور ان کے بچے مخصوص انداز میں پیروں تلے روندتے ہیں اور اسے پٹخیاں دے کر آٹے کی طرح گوندا جاتا ہے اور پھر جو شاہکار تیار کرنا ہوتا ہے اس کے وزن اور سائز کے مطابق مٹی کو کاٹ کر گول گھومتے چرخے پر رکھ دیا جاتا ہے جسے چک کہا جاتا ہے۔ اور پھر ان کمہاروں کی حیران کن مہارت اور اس سادہ سے چرخے کا ملاپ وہ فن پارہ تیار کرتا ہے کہ دیکھنے والے چکا چوند رہ جاتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان برتنوں میں سادگی بھی ہے اور شفا بی لیکن اب لگتا ہے کہ سمجھ کا فقدان ہے۔ پلاسٹک کے برتنوں کے مطاقب یہ تھوڑے مہنگی ہیں لیکن یہ ان بیکٹیریا سے محفوظ ہیں جو ان پلاسٹک میں پائے جاتے ہیں۔ مارکیٹ میں مٹی کے برتنوں کی مانگ میں کمی اور صحیح ا!جرت نہ ملنے سے کئی کمہار مفلسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کمہاروں کو اگر حکومتی سطح پر سرپرستی حاصل ہو جائے تو روزگار میں آسانی کے ساتھ ساتھ قدیم ثقافت کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس صنعت پر حکومتی سرمایہ نہیں لگتا، تھوڑے سے فنڈز اور توجہ سے اس صنعت کو مسائل کے دلدل سے نکالا جا سکتا ہے۔
پروفائل:
ضلع ٹنڈوالہیار کا رہائشی فیروز کا تعلق اس طبقے سے ہے، جو صدیوں سے اس پیشے سے منسلک ہے۔ جس پیشے کو اپنانے کا خیال ہم لوگوں کے ذہنوں میں دور تک بھی نہیں آتا۔ یعنی مٹی کے برتن بنانا۔ جسے ظروف سازی یا کمہاروں کا پیشہ کہا جاتا ہے۔ فیروز کے آباٖ اجداد اس پیشے سے منلکس رہے ہیں۔ جب تک یہ سلور، کانچ، نام چنی اور پلاسٹک کے برتنوں کا رواج نہیں تھا، لوگ مٹی کے برتن ہی استعمال میں لاتے تھے۔ کہماروں کا گذر بسر بھی اس سے بخوبی ہو جاتا تھا۔ مگر موجودہ دور میں انتہائی حد تک پلاسٹک اور دیگر اشیاء سے بنے ہوئے برتنوں کے استعمال نے فیروز کے پیشے کو ایک بڑا زبردست معاشی جھٹکا لگا دیا ہے۔ اس کا خاندانی کام زوال پذیر ہے۔ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ میاں بیوی سمیت آٹھ افراد پر مشتمل فیروز کا خاندان بڑی غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ یہ کام انتہائی مشقت کا ہے۔ مٹی ڈھوکر لانا، اس کا گارہ بنانا پر اس سے مختلف اقسام کے برتن بنانا وار انہیں دھوپ میں سکھا کر کمال احتیاط سے مارکیٹ تک پہنچانا اس کے ذمہ داری ہے۔
اس مہنگائی کے دور میں کاروبار کی چلت نہ ہونے پر فیروز مالی مشکلات کا شکار ہے۔ فیروز اس قدر مشقت سے مٹی کے ذریعے جو مال بناتا ہے، مارکیٹ والے اسے اس کی اجرت بہت کم دیتے ہیں، فیروز سے سستے داموں خرید کر بازار میں مہنگے داموں بیچ کر خود نفع کماتے ہیں مگر فیروز کے گھر کی گاڑی سسک سسک کر چلتی ہے۔ اگر گھر میں اس کی بیوی یا بچوں میں سے کوئی بیمار ہوتا ہے تو غریب فیروز کے لئے علاج کے پیسے بھی بمشکل نکل پاتے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی یہ محنت سے دریغ نہیں کرتا۔ ہمارے ارباب اختیار فیروز جیسے کمہاروں کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں اور ان کی مالی معاونت کے لیے پروجیکٹ تشکیل دیے جائیں، تاکہ یہ صدیوں پرانہ پیشہ جو کہ خود ایک آرٹ بھی ہے بالکل ختم ہی نہ ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیقاتی رپورٹ:
محمد قاسم (2K17/MC/34)
(آثار قدیمہ کی رپورٹ، آرکیالوجسٹ،شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائر یکٹر اور تاریخ دان سے ملاقات )
ماہرین کی رائے اور آثار قدیمہ کی رپورٹس:
انسانی تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ انسان اپنے ارد گرد کے چیزوں کو اپنی ضروریات کے مطابق استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ مٹی سے بنے برتن انسانی تاریخ کا شاخسانہ ہیں۔ سٹون ایج میں زندگی گزار نے کے بعد بھی اپنے خوبصورت واقعات کو جذب کرنا بھی ایک مہارت ہے جو انسان کو قدرت نے دی ہے۔ قلم،کیمرہ یا ویڈیو گرافی نہ ہونے کے باوجود بھی اسارے قدیمہ کے زخایر ہمیں ملتے ہیں۔
صادق حسن جو کہ سماجی رہنما ہیں ان کے مطابق پوری دنیا میں آرٹسٹ کمیونٹی کو پروموٹ کیا جاتا ہے اور انہیں اعزازی طور پر عزت بھی دی جاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ آثار قدیمہ اور چین کی تین ریسرچ یونیورسٹیز نے خانپور کے قریب کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی مٹی کے برتن اور دیگر نوادارت 17 سو قبل مسیح دور کے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ فن اور صنعت کافی پرانی ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق محکمہء آثار قدیمہ پنجاب اور چینی آرکیالوجسٹ کی مشترکہ کاوشوں سے ٹیکسلا کے مقام پر بھی اسی قسم کے کھنڈرات ملے ہیں، جن میں مٹی کے برتن اور لوہے کے اوزار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ محکمہء آثار قدیمہ کے نمائندے ناصر خان نے بتایا کہ کھدائی دوران ہمیں ایسی نادر اشیاء ملتی ہیں جس سے ہمیں تاریخ شناسی اور قدیم تاریخ کے بارے میں سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
آ ٓرکیالوجسٹ شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائین کے ڈائریکٹر اور تاریخ دان سے ملاقات:
پاکستان اور دیگر ایشیائی ملکوں مثلا ًبھارت، بنگلادیش اور سری لنکا کا موازنہ کیا جائے تو کمہار اور مٹی سے بنی اشیاء کی انڈسٹری کی حالت زار ایک جیسی ہے۔ اس موضوع پر جامعہ سندھ کے شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائریکٹر سعید منگی کا کہنا تھا کہ برِصغیر سے تعلق رکھنے والے کمہاروں کی بنیاد ایک ہی ہے، کیونکہ یہ سب ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے کام کی مہارت، مالی وسائل اور مسائل تمام ممالک میں ایک جیسے ہیں، کیونکہ یہ لوگ معیشت میں کوئی واضح رول ادا نہیں کر پاتے ہیں۔ اس لیے حکومتی توجہ بھی اس طرف مائل نہیں ہوتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کمہار جس نفاست سے کام کرتے ہیں ہم ان سے بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔آثارقدیمہ میں پیش آنے والے وقعات کو اپنی کاریگری سے مٹی کے برتن میں تصویرات بناکر محفوظ کرلیاگیا،یہی وجہ ہے کہ ثقافتی تہذہب بھی برتن کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی برتن پر بنی نقش ونگاری کی اہمیت ہے برتن میں بنی جانوروں کی تصاویر ہمیں دور ماضی کی جانوروں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ جیسے کہ مور کی تصوریر جو کہ برتن کے اُپری حصے میں نظر آتی ہے اس سے مور کی تعظیم کا احساس ہوتاہے۔ دوسری جانب مچھلی کی تصویریں بھی نظر آتی ہیں ایک برتن پر ہرنی اپنے بچوں کو دودھ پیلارئی ہے ہرنی کمر پر پرندہ بیٹھا ہے اور پسِ منظر میں ایک مچھلی،پودے اور دوسری چیزیں نظر آرہی ہیں۔قدیم ثقافت کے یہ رنگ مٹی سے بنے قدیم برتنوں کی صورت میں ملے ہیں۔ سندھ میں اسارے قدیمہ کی ثقافت کے نمونے آج کے دور میں بھی ملتے ہیں جن میں آثارِ قدیمہ میں مٹی سے بنے برتن پر مخصوص مصوری سے آثار قدیمہ میں پائے جانے والی ثقافت کو محفوظ کیا گیا ہے برتن پر بنی مورتیوں میں لڑکیوں اور عورتوں کو زیورات بھی پہنائے گئے ہیں مثلا:کنگن اور چوڑیاں۔اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ دائیں ہاتھ میں کلائی تک چوڑیاں نظر آتی ہیں جب کہ بائیں ہاتھ میں کلائی سے کونی تک یا کونی سے بھی اوپُر کندھے تک چوڑیاں بھری ہوئی ہیں۔اس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ اسارے قدیمہ کی ثقافتی رنگ میں عورتوں کے لیے اسے ساڑھی نما لباس ہوا کرتے تھے جس میں دائیاں بازو ملبوس تھا اور بائیاں بازو آدھا برہنہ ہواکرتا تھا۔مویشی مورتیاں بھی مٹی کی ہیں مٹی میں بنائی جاتی تھی۔ان کی تعداد زنانہ مورتیوں سے کہیں زیاد ہ ہیں۔مثلاً کلی میں چھوٹی سی کھدائی میں چھیاسٹھ مورتیاں ملی ہیں اور شاہی ٹمپ میں پچاسی۔یہ ایک ڈھیر کی شکل میں ملی ہیں۔جس کا انداز ایسا ہے کہ یہ نہ تو کمہار کی بھٹی لگتی ہے نہ کھلونوں کی دوکان۔بلکہ دھرتی ماتا پر بھینٹ چڑھائے گئے جانوروں کا ڈھیر لگتاہے۔ مٹی کے برتن پتھرکی سلوں کو اندراور باہر سے تراش کر پیالے،مگ،وغیرہ بنائے جاتے تھے۔ان میں اکثر ۲ یا ۳ اینچ چوڑے اور ۳ سے ۴اینچ اُوچے ہیں ایک چکور چار اینچ مربع برتن ملاہے جس میں چار خانے تراشے گئے ہیں بعض برتنوں میں کھدائی سے میناکاری کی گئی ہے۔بعض تکونے حصے میں بنے ہوئے ہیں غالباً یہ برتن عورتوں کے سنگھار کاسامان رکھنے کے کام آتے تھے۔قدیم زمانے کے لوگ مردوں کو دفن کرتے تھے تو ساتھ برتن اور اشیاء بھی چھوڑ آتے تھے جانوروں کی قربانی دیتے تھے جادو کے خیالات یا مذہبی تفصیلات بھی ملتی ہیں۔گوشت خور تھے،گائے کا دودھ پیتے تھے،گائے کو ماتا سمجھتے تھے اور اسکی تعظیم کرتے تھے فصل اُگاتے تھے۔پیپل کے درخت کو اہم سمجھتے تھے۔ماضی میں مٹی کے برتن کی تاریخ کا مطلع کریں تو ہمیں مٹی اور کمہار کے رشتے کا معلوم ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے برتن ایران میں بنے۔ایران میں جوکالے برتن ۰۰۰۱ سے ۰۰۵۱ قبل مسیح میں بنے۔قبل مسیح ایران کمہار وں نے سرخ رنگ کے برتنوں پر پرندے،جانوروں،بیل بوٹوں کی تصویرات بنا نا شروع کی۔اسی طرح یہ ثقافت سیستان،بلوچستان اور سندھی تہذیب میں آپہنچی۔
ََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیقاتی رپورٹ:
صوبیہ اعوان ((2k17/MC/96 (مٹی کے برتنوں کے فوائد،طبی ماہرین اور ڈاکٹر کی رائے)
ُُ مٹی کے برتنوں کے فوائد
اللہ نے انسان کے لئے بیشمار نعمتیں پیدا کی ہیں۔جن میں سے ایک نعمت مٹی ہے۔ہم اس مٹی سے اپنے گھر،سانچے،مٹی کے برتن اور دوسری ضر وریات زندگی کی اشیاء بناتے ہیں...مٹی قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے انسان کے لئے۔
جدیدیت نے ہماری زندگیوں پر اس طرح ک ا اثر ڈالا ہے کہ نہ صرف ہماری زندگی گزارنے کا طریقہ بدل گیا ہے بلکہ ہمارے کھانے،پینے کا انداز بھی مکمل طور پر بدل گیا ہے۔اس کی وجہ سے کیچن میں اس طرح کی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ہاں،پہلے خواتین کھانا پکانے کیلئے چولہا اور مٹی کے برتنوں کا استعمال کرتی تھیں،مگر اب ان کی جگہ گیس کے چولہے،فرج اور اوون،پریشر کوکوکر آگئے ہیں۔جدید طرز زندگی کی وجہ سے برتنوں کا استعمال فیشن سے باہر ہوتا جارہا ہے،لیکن پرانے زمانے میں مٹی کے برتنوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے لوگ کم بیمار پڑتے تھے۔لیکن جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی گئی مٹی کے برتن کچن سے غائب ہی ہوگئے۔لیکن کیا سب جانتے ہیں.کہ مٹی کے بنے کھانے صحت کیلئے اچھے ہیں؟
ان فوائد کے پیش نظر،مٹی کے برتن دوبارہ مارکیٹ میں آئے ہیں۔کھانا پکانے سے لے کر کھا نے تک،پانی پینے سے لے کر ذخیرہ کرنے تک،گھر و ں کی خوبصورتی سے دکانوں وغیرہ کی سجاوٹ تک ہر جگہ مٹی کے برتن استعمال ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے:
مٹی کے برتنوں کے فوائد کے حوالے ڈاکٹرز اور طبی ماہرین سے بات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ مٹی کے برتن کا استعمال صرف روایتی طور پر ہی نہیں کیاجاتابلکہ اس کے انسانی صحت پران گنت فوائد ہے۔لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اس بات سے انجان ہیں اور وہ شیشہ،پلاسٹک اور سٹیل وغیرہ کے برتن استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مٹی کے برتن میں پانی پینے کے چند اہم فوائد ہیں۔ پرانے زمانے میں مٹی کے گھڑے (مٹکا) میں پانی کو جمع کیا جاتا تھا اس وقت نہ بجلی تھی نہ ہی فریج جیسی کوئی چیز۔آج کے ڈاکٹرز بھی یہی کہتے ہیں کے مٹی کے گھڑے سے اچھی کوئی چیز نہیں،ان گھڑوں میں نہ صرف پانی ٹھنڈا ہوتا ہے،بلکہ مٹی کے عناصر بھی شامل ہوجاتے ہیں ...جوکہ انسانی صحت کیلئے بے حد فائدہ مند ہیں۔
قلمی صفت یا کھارا پن ہونا یہ مٹی کے برتن کی خاصیتوں میں ایک خاصیت ہے۔قلمی صفت یا کھارا پن ہونے کی وجہ سے مٹی کے برتن پانی کی تیزابیت کو ختم کرکے اس کا پی۔ایچ لیول متوازن رکھتا ہیں۔پانی کا پی۔ایچ لیول ٹھیک ہونے کی وجہ سے یہ معدہ کے درد میں کمی کا سبب بنتا ہے پیٹ درد معدہ کی سوزش، اور دیگر اندرونی درد سے چھٹکارے کا باعث بنتا ہے
ڈاکٹر راحیل قمرکے مطابق ٹھنڈا پانی گلے کے غدودکو نقصان پہنچاتا ہے۔جو اکثر کھانسی اور گلے کے دوسرے مسائل کی وجہ بنتا ہے اس کے برعکس مٹکے کا پانی ایک ہی درجہ پر برقرار رہتا ہے۔اس وجہ سے یہ کسی بھی قسم کے گلے کے مسائل کی وجہ نہیں بنتا۔گرمی میں مٹکے کا پانی استعمال کرنا جسم میں نیوٹریشن،وٹامن گلوکوزکو متوازن رکھتا ہے اور ہیٹ اسٹراک ے خدشے سے محفوظ رکھتا ہے۔مٹکے کا پانی دن بھر تازگی اور تسکین فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی صحت کو تحفظ دیتا ہے۔ مٹکے کا پانی قدرتی طور پر ٹھنڈا رہتا ہے اور ساتھ ہی مٹی کی معدنیاتی نعمت سے بھی بھرپور رکھتا ہے۔مٹکے کا پانی قدرتی طور پر بدلتے ہوئے موسم کے حساب سے ٹھنڈا رہتا ہے۔
جب دودھ اور گوشت وغیرہ کو مٹی کے برتن میں پکایا جاتا ہے،تو اس میں کیمیائی تبدیلی آتی ہے جو انسان کی صحت کے لئے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کا مزہ بھی دوبالا کرتی ہے۔
اگر صحت مند رہنا ہے تو پریشر کوکر کے بجائے مٹی کے برتن استعمال کئے جائے۔ان میں پکائیں اور کھائیں۔ ہمار ے جسم کو روزانہ ۸۱ قسم کی متناسب غذائی اجزاء کی ظرورت ہوتی ہے،جو مٹی کے برتنوں میں بنا،کھا کر آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہے۔ان مائیکرونیوترینٹ میں کیلشیم،میگنیشیم،سلفر،آئرن،سلیکین،کوبالٹ،جپسم وغیر ہشا مل ہیں۔ایک ہی وقت میں یہ تمام اجزاہ پریشر کوکر اور اوون جیسی چیزوں میں تباہ ہوجاتے ہیں۔لہذاکھانا،پکانا مٹی کے برتن میں کیا جائے۔
طبی ماہرین کے مطا بق مٹی کے برتن میں بنی دالیں اور سبزیاں ۰۰۱ فیصدمائکروغذائی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں جبکہ پریشر کوکر وغیرہ میں اجزاہ بلکل ختم ہوجاتے ہیں.....یہی وجہ ہے کہ غذا کے ماہر اور غذائیت پسندوں نے مٹی کے برتن استعمال کرنے پر زور دیا ہے۔کھانا مٹی کے برتن میں بنانے سے اس میں مٹی کی بہترین خوشبو آتی ہے اور کھا نا بھی لذیذہ لگتا ہے۔
مٹی کے برتن خوبصورتی کے معاملے میں بھی بہت پرکشش نظر آتے ہیں۔محض کچھ احتیاط کے ساتھ سنبھالنا پڑتا ہے۔ مٹی کے برتن دودھ کی دہی سے بنی ڈشزکیلئے بہترین ہیں۔مٹی سے بنے ہوئے برتنوں میں کھانا کھانا صحت کیلئے نہایت فائدہ مند ہے۔اس میں آئل کا استعمال بھی کم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ کھانے کا مزہ بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔یہ سستے داموں آسانی سے مل بھی جاتے ہیں جس سے گھر کے بجٹ پربھی زیادہ اثر نہیں پڑتا۔
ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ مٹی کے برتن کے استعمال کے کیا فائدہ اور کیا نہیں ہیں۔اس میں قدرت نے کیا کیا فائدہ رکھا ہے۔مٹی کے برتن کے بے شمار فوائد ہیں۔اگر معدنیات،وٹامنز اور پروٹین کیلئے غذا کھاتے ہیں۔
.......................................................
یہ ضلع کی رپورٹ نہیں ٹنڈوالہیار شہر کی ہے۔
گروپ نمبر:11
گروپ ممبران:
فضل حسین(2k17/MC/34): (پسِ منظر اور کمہاروں کے موجودہ حالات اور مسائل،کمہاروں سے بات چیت،پروفائل)
محمدقاسم :(2k17/MC/65)ٓٓٓٓٓٓٓٓٓ (آثار قدیمہ کی رپورٹ، آرکیالوجسٹ،شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائر یکٹر اور تاریخ دان سے ملاقات )
صوبیہ اعوان ((2k17/MC/96 (مٹی کے برتنوں کے فوائد،طبی ماہرین اور ڈاکٹر کی رائے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیقاتی رپورٹ
فضل حسین(2k17/MC/34): (پسِ منظر اور کمہاروں کے موجودہ حالات اور مسائل،کمہاروں سے بات چیت،پروفائل)
پسِ منظر اور کمہاروں کے موجودہ حالات اور ان کے مسائل:
مٹی اور انسان کا تعلق ازل سے ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی اپنی تخلیق بھی مٹی اور گارے سے کی گئی ہے۔ اسی لیے انسان کی مٹی سے رغبت ڈھکی چھپی نہیں۔ فصلوں کی ا!گائی ہو یا کھانا پکانے اور کھانے کے برتنوں کی تیاری سبھی کچھ پرانے وقتوں سے ہی مٹی کا ہی مرہونِ منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موئن جو دڑو ہو یا ہڑپہ یا پھر یونانی تہذیب کی باقیات ان میں مٹی سے نے برتن ہمیں ضرور ملتے ہیں جو اس بات کی علامات ہے کہ ہاتھوں سے بنائے گئے چکنی مٹی سے تیار کردہ برتن صدیوں سے ہی گھرداری کا حصہ رہے ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں جبک ہر چیز مشینوں کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے اور انسان بھی مشین بن گیا ہے۔ صنعتی ترقی اپنے عروج پر ہے۔ لوہے، اسٹیل، ایلمونیم اور شیشے سے تیار شدہ برتن لوگوں کی ضرورت بن گئے ہیں لیکن ہمکاریگروں اور فنکاروں کے ہاتھوں سے بنی مٹی سے تیار کردہ اشیاء نے آج بھی لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ اشیاء کہیں کسی کی ضرورت ہے تو کسی کے لیے فن کا ایک نمونہ لیکن اتنا ضرور ہے کہ مٹکے ہوں یا صراحی، گملے ہوں یا غلک کسی نہ کسی شکل میں مٹی سے بنی اشیاء پرانے وقتوں سے اکثر گھروں کے سامان کا حصہ ہوتی ہیں۔ ان خوبصورت،کارآمد اور روایتی اشیاء کے تیار کرنے والے بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنی یہ اشیاء۔
سادگی اور محنت پسند یہ لوگ کمہار کہلاتے ہیں، یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کمہار انسانی تہذیب کا پہلا فن کار ہے، جس نے قدموں تلے روندتی مٹی کو اپنے فن سے خوبصورت شاہکاروں میں ڈھال کر حیران کردیا۔ ا نسل درنسل فن کو منتقل کرتے یہ کمہار بے شکل مٹی کو اپنی فنکاری سے وہ وہ صورتیں بخشتے ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جدید دور کی اس تیز روشنی میں مٹی کے دیے تیار کرنا، ریفریجریٹر کے مقابلے مٹی کے گھڑوں کو لا کھڑا کرنا بلاشبہ ان عظیم کمہاروں کا کام ہے۔ جو اس جدید دور کی موجوں کے آگے قدم جمائے کھڑے ہیں اور پرانی اور سادہ تہذیب کے نشان بنے ہوئے ہیں۔ مٹی سے برتن بنانا فن ہی نہیں ایک ثقافت بھی ہے۔
صوبہ سندھ کے شہر ضلع ٹنڈوالہیار کی کمہار کالونی میں قائم مٹی سے بنے برتن اور دیگر اشیاء کے 20 سے زائد کارخانے موجود ہیں، جو اندرون سندھ میں سب سے زیادہ ہیں۔ کسی وقت یہاں 350 سے زیادہ کارخانے موجود تھے، جو آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ یہاں پر مقیم زیادہ تر کمہار تقسیم ہند کے یہاں آباد ہوئے اور شروع سے ہی یہ کام کر رہے ہیں۔ کمہار کالونی میں مٹی کے ہنر میں تخلیقی حسن کے نقش کھوجتے یہ کمہار مسلمان بھی ہیں اور کچھ ہندو بھی کالونی میں موجود کمہار علی بخش کے مطابق یہ علاقہ پہلے شہری آبادی سے کافی دور تھا لیکن آبادی کی اکثریت یہاں بھی آباد ہوگئی ہے۔ کارخانے ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہاں رہنے والے لوگوں کے اعتراضات ہیں۔ بھٹہ جلانے کے لئے ہمیں گنے کا چھلکا، لکڑی کا بور گوبر سے بنے بنے اوپلے اور دوسری اشیاء کی ضرورت پڑتی ہے، کیونکہ مٹی کے برتن سکانے کے لئے زیادہ درجہء حرارت کی ضرورت پڑتی ہے، اسی وجہ سے آلودگی بھی پھیلتی ہے اور پھر یہ مٹی کا بھی کام ہے۔ کام ختم ہونے کی وہ سے یہاں رہنے والے اکثر کمہار یا تو دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے اور کچھ نے دوسرا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔
کمہاروں سے بات چیت:
نئی نئی چیزوں کی ایجاد، مشینوں کی تیاری اور بڑھتے کاروبار زندگی نے اس کام کو پیچھے دھکیل دیا ہے، کیونکہ دن رات محنت اور جدوجہد تمام تر مہارت استعمال کرتے ہوئے یہ کمہار جتنے برتن بناتے ہیں اتنے برتن اس مقصد کے لئے بنائی گئی مشین ایک گھنٹے میں تیار کر لیتی ہے۔ اسی لیے فن اور اس کے کاریگر تقریبا ختم ہوئے جا رہے ہیں۔ یہاں رہنے والے کچھ خاندان نسل درانسل اس فن کی آبیاری کرنے والے اس کو ذریعہء معاش بھی بنائے ہوئے ہیں اور اسے اپنے باپ دادا کا فن سمجھ کر مقدس بھی جانتے ہیں۔ کمہار محمد نبی جو 27 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ کام کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے آباٖ اجداد کا کام ہے۔ ان کو بھی اس کا م میں دلچسپی تھی اور ہمیں بھی ہے۔ آئندہ ہمارے بچے بھی پڑھ لکھ کر اس کام کو آگے بڑھائیں گے، کیونکہ یہ ہمارا خاندانی کام ہے۔ ایک ضعیف العمر کمار ابراہیم علی جو کہ دو کارخانوں کے مالک ہیں، ان کے مطابق مٹی کے برتن بنانے کے لے سب سے اہم کام موزوں مٹی کا حصول ہوتا ہے، جسے ٹنڈوالہیار اور میرپورخاص کے مختلف علاقوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ مٹی نہروں اور زرخیز زمین سے بھی حاصل کی جاتی ہے۔ مٹی کی اقسام بھی ہوتی ہیں اور پاکستان میں ہر قسم کی مٹی پائی جاتی ہے۔ دوسرے ممالک سے یہ مٹی نہیں منگوائی جاتی۔ اینٹیں بنانے کے لئے الگ قسم کی مٹی استعمال ہوتی ہے۔ تندور بنانے کے لئے بھی دوسری قسم کی مٹی کا استعمال ہوتا ہے اور کھانا پکانے اور پانی پینے کے برتن بنانے کے لئے مخصوص قسم کی مٹی استعمال ہوتی ہے۔
لائی گئی مٹی کو پانی میں نرم کرنے، چھاننے، اس میں لیس پیدا کرے اور اسے خاص حد تک سکھانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں تین سے چار روز لگ جاتے ہیں۔ مختلف اشیاء کی تیاری کے لئے مختلف اقسام کی مٹی استعمال کی جاتی ہے۔ مٹی کے حصول اور دیگر مراہل سے گذرنے کے بعد تیار شدہ ملائم اور چکنی مٹی کو ہمارے یہ کمہار اور ان کے بچے مخصوص انداز میں پیروں تلے روندتے ہیں اور اسے پٹخیاں دے کر آٹے کی طرح گوندا جاتا ہے اور پھر جو شاہکار تیار کرنا ہوتا ہے اس کے وزن اور سائز کے مطابق مٹی کو کاٹ کر گول گھومتے چرخے پر رکھ دیا جاتا ہے جسے چک کہا جاتا ہے۔ اور پھر ان کمہاروں کی حیران کن مہارت اور اس سادہ سے چرخے کا ملاپ وہ فن پارہ تیار کرتا ہے کہ دیکھنے والے چکا چوند رہ جاتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان برتنوں میں سادگی بھی ہے اور شفا بی لیکن اب لگتا ہے کہ سمجھ کا فقدان ہے۔ پلاسٹک کے برتنوں کے مطاقب یہ تھوڑے مہنگی ہیں لیکن یہ ان بیکٹیریا سے محفوظ ہیں جو ان پلاسٹک میں پائے جاتے ہیں۔ مارکیٹ میں مٹی کے برتنوں کی مانگ میں کمی اور صحیح ا!جرت نہ ملنے سے کئی کمہار مفلسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کمہاروں کو اگر حکومتی سطح پر سرپرستی حاصل ہو جائے تو روزگار میں آسانی کے ساتھ ساتھ قدیم ثقافت کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس صنعت پر حکومتی سرمایہ نہیں لگتا، تھوڑے سے فنڈز اور توجہ سے اس صنعت کو مسائل کے دلدل سے نکالا جا سکتا ہے۔
پروفائل:
ضلع ٹنڈوالہیار کا رہائشی فیروز کا تعلق اس طبقے سے ہے، جو صدیوں سے اس پیشے سے منسلک ہے۔ جس پیشے کو اپنانے کا خیال ہم لوگوں کے ذہنوں میں دور تک بھی نہیں آتا۔ یعنی مٹی کے برتن بنانا۔ جسے ظروف سازی یا کمہاروں کا پیشہ کہا جاتا ہے۔ فیروز کے آباٖ اجداد اس پیشے سے منلکس رہے ہیں۔ جب تک یہ سلور، کانچ، نام چنی اور پلاسٹک کے برتنوں کا رواج نہیں تھا، لوگ مٹی کے برتن ہی استعمال میں لاتے تھے۔ کہماروں کا گذر بسر بھی اس سے بخوبی ہو جاتا تھا۔ مگر موجودہ دور میں انتہائی حد تک پلاسٹک اور دیگر اشیاء سے بنے ہوئے برتنوں کے استعمال نے فیروز کے پیشے کو ایک بڑا زبردست معاشی جھٹکا لگا دیا ہے۔ اس کا خاندانی کام زوال پذیر ہے۔ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ میاں بیوی سمیت آٹھ افراد پر مشتمل فیروز کا خاندان بڑی غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ یہ کام انتہائی مشقت کا ہے۔ مٹی ڈھوکر لانا، اس کا گارہ بنانا پر اس سے مختلف اقسام کے برتن بنانا وار انہیں دھوپ میں سکھا کر کمال احتیاط سے مارکیٹ تک پہنچانا اس کے ذمہ داری ہے۔
اس مہنگائی کے دور میں کاروبار کی چلت نہ ہونے پر فیروز مالی مشکلات کا شکار ہے۔ فیروز اس قدر مشقت سے مٹی کے ذریعے جو مال بناتا ہے، مارکیٹ والے اسے اس کی اجرت بہت کم دیتے ہیں، فیروز سے سستے داموں خرید کر بازار میں مہنگے داموں بیچ کر خود نفع کماتے ہیں مگر فیروز کے گھر کی گاڑی سسک سسک کر چلتی ہے۔ اگر گھر میں اس کی بیوی یا بچوں میں سے کوئی بیمار ہوتا ہے تو غریب فیروز کے لئے علاج کے پیسے بھی بمشکل نکل پاتے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی یہ محنت سے دریغ نہیں کرتا۔ ہمارے ارباب اختیار فیروز جیسے کمہاروں کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں اور ان کی مالی معاونت کے لیے پروجیکٹ تشکیل دیے جائیں، تاکہ یہ صدیوں پرانہ پیشہ جو کہ خود ایک آرٹ بھی ہے بالکل ختم ہی نہ ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیقاتی رپورٹ:
محمد قاسم (2K17/MC/34)
(آثار قدیمہ کی رپورٹ، آرکیالوجسٹ،شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائر یکٹر اور تاریخ دان سے ملاقات )
ماہرین کی رائے اور آثار قدیمہ کی رپورٹس:
انسانی تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ انسان اپنے ارد گرد کے چیزوں کو اپنی ضروریات کے مطابق استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ مٹی سے بنے برتن انسانی تاریخ کا شاخسانہ ہیں۔ سٹون ایج میں زندگی گزار نے کے بعد بھی اپنے خوبصورت واقعات کو جذب کرنا بھی ایک مہارت ہے جو انسان کو قدرت نے دی ہے۔ قلم،کیمرہ یا ویڈیو گرافی نہ ہونے کے باوجود بھی اسارے قدیمہ کے زخایر ہمیں ملتے ہیں۔
صادق حسن جو کہ سماجی رہنما ہیں ان کے مطابق پوری دنیا میں آرٹسٹ کمیونٹی کو پروموٹ کیا جاتا ہے اور انہیں اعزازی طور پر عزت بھی دی جاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ آثار قدیمہ اور چین کی تین ریسرچ یونیورسٹیز نے خانپور کے قریب کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی مٹی کے برتن اور دیگر نوادارت 17 سو قبل مسیح دور کے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ فن اور صنعت کافی پرانی ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق محکمہء آثار قدیمہ پنجاب اور چینی آرکیالوجسٹ کی مشترکہ کاوشوں سے ٹیکسلا کے مقام پر بھی اسی قسم کے کھنڈرات ملے ہیں، جن میں مٹی کے برتن اور لوہے کے اوزار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ محکمہء آثار قدیمہ کے نمائندے ناصر خان نے بتایا کہ کھدائی دوران ہمیں ایسی نادر اشیاء ملتی ہیں جس سے ہمیں تاریخ شناسی اور قدیم تاریخ کے بارے میں سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
آ ٓرکیالوجسٹ شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائین کے ڈائریکٹر اور تاریخ دان سے ملاقات:
پاکستان اور دیگر ایشیائی ملکوں مثلا ًبھارت، بنگلادیش اور سری لنکا کا موازنہ کیا جائے تو کمہار اور مٹی سے بنی اشیاء کی انڈسٹری کی حالت زار ایک جیسی ہے۔ اس موضوع پر جامعہ سندھ کے شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائریکٹر سعید منگی کا کہنا تھا کہ برِصغیر سے تعلق رکھنے والے کمہاروں کی بنیاد ایک ہی ہے، کیونکہ یہ سب ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے کام کی مہارت، مالی وسائل اور مسائل تمام ممالک میں ایک جیسے ہیں، کیونکہ یہ لوگ معیشت میں کوئی واضح رول ادا نہیں کر پاتے ہیں۔ اس لیے حکومتی توجہ بھی اس طرف مائل نہیں ہوتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کمہار جس نفاست سے کام کرتے ہیں ہم ان سے بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔آثارقدیمہ میں پیش آنے والے وقعات کو اپنی کاریگری سے مٹی کے برتن میں تصویرات بناکر محفوظ کرلیاگیا،یہی وجہ ہے کہ ثقافتی تہذہب بھی برتن کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی برتن پر بنی نقش ونگاری کی اہمیت ہے برتن میں بنی جانوروں کی تصاویر ہمیں دور ماضی کی جانوروں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ جیسے کہ مور کی تصوریر جو کہ برتن کے اُپری حصے میں نظر آتی ہے اس سے مور کی تعظیم کا احساس ہوتاہے۔ دوسری جانب مچھلی کی تصویریں بھی نظر آتی ہیں ایک برتن پر ہرنی اپنے بچوں کو دودھ پیلارئی ہے ہرنی کمر پر پرندہ بیٹھا ہے اور پسِ منظر میں ایک مچھلی،پودے اور دوسری چیزیں نظر آرہی ہیں۔قدیم ثقافت کے یہ رنگ مٹی سے بنے قدیم برتنوں کی صورت میں ملے ہیں۔ سندھ میں اسارے قدیمہ کی ثقافت کے نمونے آج کے دور میں بھی ملتے ہیں جن میں آثارِ قدیمہ میں مٹی سے بنے برتن پر مخصوص مصوری سے آثار قدیمہ میں پائے جانے والی ثقافت کو محفوظ کیا گیا ہے برتن پر بنی مورتیوں میں لڑکیوں اور عورتوں کو زیورات بھی پہنائے گئے ہیں مثلا:کنگن اور چوڑیاں۔اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ دائیں ہاتھ میں کلائی تک چوڑیاں نظر آتی ہیں جب کہ بائیں ہاتھ میں کلائی سے کونی تک یا کونی سے بھی اوپُر کندھے تک چوڑیاں بھری ہوئی ہیں۔اس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ اسارے قدیمہ کی ثقافتی رنگ میں عورتوں کے لیے اسے ساڑھی نما لباس ہوا کرتے تھے جس میں دائیاں بازو ملبوس تھا اور بائیاں بازو آدھا برہنہ ہواکرتا تھا۔مویشی مورتیاں بھی مٹی کی ہیں مٹی میں بنائی جاتی تھی۔ان کی تعداد زنانہ مورتیوں سے کہیں زیاد ہ ہیں۔مثلاً کلی میں چھوٹی سی کھدائی میں چھیاسٹھ مورتیاں ملی ہیں اور شاہی ٹمپ میں پچاسی۔یہ ایک ڈھیر کی شکل میں ملی ہیں۔جس کا انداز ایسا ہے کہ یہ نہ تو کمہار کی بھٹی لگتی ہے نہ کھلونوں کی دوکان۔بلکہ دھرتی ماتا پر بھینٹ چڑھائے گئے جانوروں کا ڈھیر لگتاہے۔ مٹی کے برتن پتھرکی سلوں کو اندراور باہر سے تراش کر پیالے،مگ،وغیرہ بنائے جاتے تھے۔ان میں اکثر ۲ یا ۳ اینچ چوڑے اور ۳ سے ۴اینچ اُوچے ہیں ایک چکور چار اینچ مربع برتن ملاہے جس میں چار خانے تراشے گئے ہیں بعض برتنوں میں کھدائی سے میناکاری کی گئی ہے۔بعض تکونے حصے میں بنے ہوئے ہیں غالباً یہ برتن عورتوں کے سنگھار کاسامان رکھنے کے کام آتے تھے۔قدیم زمانے کے لوگ مردوں کو دفن کرتے تھے تو ساتھ برتن اور اشیاء بھی چھوڑ آتے تھے جانوروں کی قربانی دیتے تھے جادو کے خیالات یا مذہبی تفصیلات بھی ملتی ہیں۔گوشت خور تھے،گائے کا دودھ پیتے تھے،گائے کو ماتا سمجھتے تھے اور اسکی تعظیم کرتے تھے فصل اُگاتے تھے۔پیپل کے درخت کو اہم سمجھتے تھے۔ماضی میں مٹی کے برتن کی تاریخ کا مطلع کریں تو ہمیں مٹی اور کمہار کے رشتے کا معلوم ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے برتن ایران میں بنے۔ایران میں جوکالے برتن ۰۰۰۱ سے ۰۰۵۱ قبل مسیح میں بنے۔قبل مسیح ایران کمہار وں نے سرخ رنگ کے برتنوں پر پرندے،جانوروں،بیل بوٹوں کی تصویرات بنا نا شروع کی۔اسی طرح یہ ثقافت سیستان،بلوچستان اور سندھی تہذیب میں آپہنچی۔
ََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیقاتی رپورٹ:
صوبیہ اعوان ((2k17/MC/96 (مٹی کے برتنوں کے فوائد،طبی ماہرین اور ڈاکٹر کی رائے)
ُُ مٹی کے برتنوں کے فوائد
اللہ نے انسان کے لئے بیشمار نعمتیں پیدا کی ہیں۔جن میں سے ایک نعمت مٹی ہے۔ہم اس مٹی سے اپنے گھر،سانچے،مٹی کے برتن اور دوسری ضر وریات زندگی کی اشیاء بناتے ہیں...مٹی قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے انسان کے لئے۔
جدیدیت نے ہماری زندگیوں پر اس طرح ک ا اثر ڈالا ہے کہ نہ صرف ہماری زندگی گزارنے کا طریقہ بدل گیا ہے بلکہ ہمارے کھانے،پینے کا انداز بھی مکمل طور پر بدل گیا ہے۔اس کی وجہ سے کیچن میں اس طرح کی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ہاں،پہلے خواتین کھانا پکانے کیلئے چولہا اور مٹی کے برتنوں کا استعمال کرتی تھیں،مگر اب ان کی جگہ گیس کے چولہے،فرج اور اوون،پریشر کوکوکر آگئے ہیں۔جدید طرز زندگی کی وجہ سے برتنوں کا استعمال فیشن سے باہر ہوتا جارہا ہے،لیکن پرانے زمانے میں مٹی کے برتنوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے لوگ کم بیمار پڑتے تھے۔لیکن جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی گئی مٹی کے برتن کچن سے غائب ہی ہوگئے۔لیکن کیا سب جانتے ہیں.کہ مٹی کے بنے کھانے صحت کیلئے اچھے ہیں؟
ان فوائد کے پیش نظر،مٹی کے برتن دوبارہ مارکیٹ میں آئے ہیں۔کھانا پکانے سے لے کر کھا نے تک،پانی پینے سے لے کر ذخیرہ کرنے تک،گھر و ں کی خوبصورتی سے دکانوں وغیرہ کی سجاوٹ تک ہر جگہ مٹی کے برتن استعمال ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے:
مٹی کے برتنوں کے فوائد کے حوالے ڈاکٹرز اور طبی ماہرین سے بات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ مٹی کے برتن کا استعمال صرف روایتی طور پر ہی نہیں کیاجاتابلکہ اس کے انسانی صحت پران گنت فوائد ہے۔لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اس بات سے انجان ہیں اور وہ شیشہ،پلاسٹک اور سٹیل وغیرہ کے برتن استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مٹی کے برتن میں پانی پینے کے چند اہم فوائد ہیں۔ پرانے زمانے میں مٹی کے گھڑے (مٹکا) میں پانی کو جمع کیا جاتا تھا اس وقت نہ بجلی تھی نہ ہی فریج جیسی کوئی چیز۔آج کے ڈاکٹرز بھی یہی کہتے ہیں کے مٹی کے گھڑے سے اچھی کوئی چیز نہیں،ان گھڑوں میں نہ صرف پانی ٹھنڈا ہوتا ہے،بلکہ مٹی کے عناصر بھی شامل ہوجاتے ہیں ...جوکہ انسانی صحت کیلئے بے حد فائدہ مند ہیں۔
قلمی صفت یا کھارا پن ہونا یہ مٹی کے برتن کی خاصیتوں میں ایک خاصیت ہے۔قلمی صفت یا کھارا پن ہونے کی وجہ سے مٹی کے برتن پانی کی تیزابیت کو ختم کرکے اس کا پی۔ایچ لیول متوازن رکھتا ہیں۔پانی کا پی۔ایچ لیول ٹھیک ہونے کی وجہ سے یہ معدہ کے درد میں کمی کا سبب بنتا ہے پیٹ درد معدہ کی سوزش، اور دیگر اندرونی درد سے چھٹکارے کا باعث بنتا ہے
ڈاکٹر راحیل قمرکے مطابق ٹھنڈا پانی گلے کے غدودکو نقصان پہنچاتا ہے۔جو اکثر کھانسی اور گلے کے دوسرے مسائل کی وجہ بنتا ہے اس کے برعکس مٹکے کا پانی ایک ہی درجہ پر برقرار رہتا ہے۔اس وجہ سے یہ کسی بھی قسم کے گلے کے مسائل کی وجہ نہیں بنتا۔گرمی میں مٹکے کا پانی استعمال کرنا جسم میں نیوٹریشن،وٹامن گلوکوزکو متوازن رکھتا ہے اور ہیٹ اسٹراک ے خدشے سے محفوظ رکھتا ہے۔مٹکے کا پانی دن بھر تازگی اور تسکین فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی صحت کو تحفظ دیتا ہے۔ مٹکے کا پانی قدرتی طور پر ٹھنڈا رہتا ہے اور ساتھ ہی مٹی کی معدنیاتی نعمت سے بھی بھرپور رکھتا ہے۔مٹکے کا پانی قدرتی طور پر بدلتے ہوئے موسم کے حساب سے ٹھنڈا رہتا ہے۔
جب دودھ اور گوشت وغیرہ کو مٹی کے برتن میں پکایا جاتا ہے،تو اس میں کیمیائی تبدیلی آتی ہے جو انسان کی صحت کے لئے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کا مزہ بھی دوبالا کرتی ہے۔
اگر صحت مند رہنا ہے تو پریشر کوکر کے بجائے مٹی کے برتن استعمال کئے جائے۔ان میں پکائیں اور کھائیں۔ ہمار ے جسم کو روزانہ ۸۱ قسم کی متناسب غذائی اجزاء کی ظرورت ہوتی ہے،جو مٹی کے برتنوں میں بنا،کھا کر آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہے۔ان مائیکرونیوترینٹ میں کیلشیم،میگنیشیم،سلفر،آئرن،سلیکین،کوبالٹ،جپسم وغیر ہشا مل ہیں۔ایک ہی وقت میں یہ تمام اجزاہ پریشر کوکر اور اوون جیسی چیزوں میں تباہ ہوجاتے ہیں۔لہذاکھانا،پکانا مٹی کے برتن میں کیا جائے۔
طبی ماہرین کے مطا بق مٹی کے برتن میں بنی دالیں اور سبزیاں ۰۰۱ فیصدمائکروغذائی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں جبکہ پریشر کوکر وغیرہ میں اجزاہ بلکل ختم ہوجاتے ہیں.....یہی وجہ ہے کہ غذا کے ماہر اور غذائیت پسندوں نے مٹی کے برتن استعمال کرنے پر زور دیا ہے۔کھانا مٹی کے برتن میں بنانے سے اس میں مٹی کی بہترین خوشبو آتی ہے اور کھا نا بھی لذیذہ لگتا ہے۔
مٹی کے برتن خوبصورتی کے معاملے میں بھی بہت پرکشش نظر آتے ہیں۔محض کچھ احتیاط کے ساتھ سنبھالنا پڑتا ہے۔ مٹی کے برتن دودھ کی دہی سے بنی ڈشزکیلئے بہترین ہیں۔مٹی سے بنے ہوئے برتنوں میں کھانا کھانا صحت کیلئے نہایت فائدہ مند ہے۔اس میں آئل کا استعمال بھی کم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ کھانے کا مزہ بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔یہ سستے داموں آسانی سے مل بھی جاتے ہیں جس سے گھر کے بجٹ پربھی زیادہ اثر نہیں پڑتا۔
ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ مٹی کے برتن کے استعمال کے کیا فائدہ اور کیا نہیں ہیں۔اس میں قدرت نے کیا کیا فائدہ رکھا ہے۔مٹی کے برتن کے بے شمار فوائد ہیں۔اگر معدنیات،وٹامنز اور پروٹین کیلئے غذا کھاتے ہیں۔
یہ ضلع کی رپورٹ نہیں ٹنڈوالہیار شہر کی ہے۔
کونسا پورشن کس نے لکھا وہ ہر سب ہیڈنگ کے ساتھ ٹیکسٹ میں دینا ضروری ہے۔
صوبیہ اعوان کا حصہ ریفر بیک ہے۔ وہ رپورٹنگ بیسڈ نہیں۔
ٹنڈوالہیار،ہاتھ سے بنے مٹی کے برتنوں کی زوال پزیرانڈسٹری
اس مجموعی رپورٹ میں بھی گروپ نمبر نہیں۔
گروپ ممبران
فضل حسین(2k17/MC/34):(پسِ منظر اور کمہاروں کے موجودہ حالات اور مسائل،کمہاروں سے بات چیت،پروفائل)
محمدقاسم)(2k17/MC/65)ٓٓٓٓٓٓٓٓٓ آثار قدیمہ کی رپورٹ، آرکیالوجسٹ،شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائر یکٹر اور تاریخ دان سے ملاقات )
صوبیہ اعوان((2k17/MC/96 (مٹی کے برتنوں کے فوائد،طبی ماہرین اور ڈاکٹر کی رائے)
پسِ منظر اور کمہاروں کے موجودہ حالات اور ان کے مسائل:
مٹی اور انسان کا تعلق ازل سے ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی اپنی تخلیق بھی مٹی اور گارے سے کی گئی ہے۔ اسی لیے انسان کی مٹی سے رغبت ڈھکی چھپی نہیں۔ فصلوں کی ا!گائی ہو یا کھانا پکانے اور کھانے کے برتنوں کی تیاری سبھی کچھ پرانے وقتوں سے ہی مٹی کا ہی مرہونِ منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موئن جو دڑو ہو یا ہڑپہ یا پھر یونانی تہذیب کی باقیات ان میں مٹی سے نے برتن ہمیں ضرور ملتے ہیں جو اس بات کی علامات ہے کہ ہاتھوں سے بنائے گئے چکنی مٹی سے تیار کردہ برتن صدیوں سے ہی گھرداری کا حصہ رہے ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں جبک ہر چیز مشینوں کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے اور انسان بھی مشین بن گیا ہے۔ صنعتی ترقی اپنے عروج پر ہے۔ لوہے، اسٹیل، ایلمونیم اور شیشے سے تیار شدہ برتن لوگوں کی ضرورت بن گئے ہیں لیکن کاریگروں اور فنکاروں کے ہاتھوں سے بنی مٹی سے تیار کردہ اشیاء نے آج بھی لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ اشیاء کہیں کسی کی ضرورت ہے تو کسی کے لیے فن کا ایک نمونہ لیکن اتنا ضرور ہے کہ مٹکے ہوں یا صراحی، گملے ہوں یا غلک کسی نہ کسی شکل میں مٹی سے بنی اشیاء پرانے وقتوں سے اکثر گھروں کے سامان کا حصہ ہوتی ہیں۔ ان خوبصورت،کارآمد اور روایتی اشیاء کے تیار کرنے والے بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنی یہ اشیاء۔ سادگی اور محنت پسند یہ لوگ کمہار کہلاتے ہیں، یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کمہار انسانی تہذیب کا پہلا فن کار ہے، جس نے قدموں تلے روندتی مٹی کو اپنے فن سے خوبصورت شاہکاروں میں ڈھال کر حیران کردیا۔ ا نسل درنسل فن کو منتقل کرتے یہ کمہار بے شکل مٹی کو اپنی فنکاری سے وہ وہ صورتیں بخشتے ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جدید دور کی اس تیز روشنی میں مٹی کے دیے تیار کرنا، ریفریجریٹر کے مقابلے مٹی کے گھڑوں کو لا کھڑا کرنا بلاشبہ ان عظیم کمہاروں کا کام ہے۔ جو اس جدید دور کی موجوں کے آگے قدم جمائے کھڑے ہیں اور پرانی اور سادہ تہذیب کے نشان بنے ہوئے ہیں۔ مٹی سے برتن بنانا فن ہی نہیں ایک ثقافت بھی ہے۔
صوبہ سندھ کے شہر ضلع ٹنڈوالہیار کی کمہار کالونی میں قائم مٹی سے بنے برتن اور دیگر اشیاء کے 20 سے زائد کارخانے موجود ہیں، جو اندرون سندھ میں سب سے زیادہ ہیں۔ کسی وقت یہاں 350 سے زیادہ کارخانے موجود تھے، جو آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ یہاں پر مقیم زیادہ تر کمہار تقسیم ہند کے یہاں آباد ہوئے اور شروع سے ہی یہ کام کر رہے ہیں۔ کمہار کالونی میں مٹی کے ہنر میں تخلیقی حسن کے نقش کھوجتے یہ کمہار مسلمان بھی ہیں اور کچھ ہندو بھی کالونی میں موجود کمہار علی بخش کے مطابق یہ علاقہ پہلے شہری آبادی سے کافی دور تھا لیکن آبادی کی اکثریت یہاں بھی آباد ہوگئی ہے۔ کارخانے ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہاں رہنے والے لوگوں کے اعتراضات ہیں۔ بھٹہ جلانے کے لئے ہمیں گنے کا چھلکا، لکڑی کا بور گوبر سے بنے بنے اوپلے اور دوسری اشیاء کی ضرورت پڑتی ہے، کیونکہ مٹی کے برتن سکانے کے لئے زیادہ درجہء حرارت کی ضرورت پڑتی ہے، اسی وجہ سے آلودگی بھی پھیلتی ہے اور پھر یہ مٹی کا بھی کام ہے۔ کام ختم ہونے کی وہ سے یہاں رہنے والے اکثر کمہار یا تو دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے اور کچھ نے دوسرا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔
کمہاروں سے بات چیت:
ئئی نئی چیزوں کی ایجاد، مشینوں کی تیاری اور بڑھتے کاروبار زندگی نے اس کام کو پیچھے دھکیل دیا ہے، کیونکہ دن رات محنت اور جدوجہد تمام تر مہارت استعمال کرتے ہوئے یہ کمہار جتنے برتن بناتے ہیں اتنے برتن اس مقصد کے لئے بنائی گئی مشین ایک گھنٹے میں تیار کر لیتی ہے۔ اسی لیے فن اور اس کے کاریگر تقریبا ختم ہوئے جا رہے ہیں۔ یہاں رہنے والے کچھ خاندان نسل درانسل اس فن کی آبیاری کرنے والے اس کو ذریعہء معاش بھی بنائے ہوئے ہیں اور اسے اپنے باپ دادا کا فن سمجھ کر مقدس بھی جانتے ہیں۔ کمہار محمد نبی جو 27 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ کام کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے آباٖ اجداد کا کام ہے۔ ان کو بھی اس کا م میں دلچسپی تھی اور ہمیں بھی ہے۔ آئندہ ہمارے بچے بھی پڑھ لکھ کر اس کام کو آگے بڑھائیں گے، کیونکہ یہ ہمارا خاندانی کام ہے۔ ایک ضعیف العمر کمار ابراہیم علی جو کہ دو کارخانوں کے مالک ہیں، ان کے مطابق مٹی کے برتن بنانے کے لے سب سے اہم کام موزوں مٹی کا حصول ہوتا ہے، جسے ٹنڈوالہیار اور میرپورخاص کے مختلف علاقوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ مٹی نہروں اور زرخیز زمین سے بھی حاصل کی جاتی ہے۔ مٹی کی اقسام بھی ہوتی ہیں اور پاکستان میں ہر قسم کی مٹی پائی جاتی ہے۔ دوسرے ممالک سے یہ مٹی نہیں منگوائی جاتی۔ اینٹیں بنانے کے لئے الگ قسم کی مٹی استعمال ہوتی ہے۔ تندور بنانے کے لئے بھی دوسری قسم کی مٹی کا استعمال ہوتا ہے اور کھانا پکانے اور پانی پینے کے برتن بنانے کے لئے مخصوص قسم کی مٹی استعمال ہوتی ہے۔
لائی گئی مٹی کو پانی میں نرم کرنے، چھاننے، اس میں لیس پیدا کرے اور اسے خاص حد تک سکھانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں تین سے چار روز لگ جاتے ہیں۔ مختلف اشیاء کی تیاری کے لئے مختلف اقسام کی مٹی استعمال کی جاتی ہے۔ مٹی کے حصول اور دیگر مراہل سے گذرنے کے بعد تیار شدہ ملائم اور چکنی مٹی کو ہمارے یہ کمہار اور ان کے بچے مخصوص انداز میں پیروں تلے روندتے ہیں اور اسے پٹخیاں دے کر آٹے کی طرح گوندا جاتا ہے اور پھر جو شاہکار تیار کرنا ہوتا ہے اس کے وزن اور سائز کے مطابق مٹی کو کاٹ کر گول گھومتے چرخے پر رکھ دیا جاتا ہے جسے چک کہا جاتا ہے۔ اور پھر ان کمہاروں کی حیران کن مہارت اور اس سادہ سے چرخے کا ملاپ وہ فن پارہ تیار کرتا ہے کہ دیکھنے والے چکا چوند رہ جاتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان برتنوں میں سادگی بھی ہے اور شفا بی لیکن اب لگتا ہے کہ سمجھ کا فقدان ہے۔ پلاسٹک کے برتنوں کے مطاقب یہ تھوڑے مہنگی ہیں لیکن یہ ان بیکٹیریا سے محفوظ ہیں جو ان پلاسٹک میں پائے جاتے ہیں۔ مارکیٹ میں مٹی کے برتنوں کی مانگ میں کمی اور صحیح ا!جرت نہ ملنے سے کئی کمہار مفلسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کمہاروں کو اگر حکومتی سطح پر سرپرستی حاصل ہو جائے تو روزگار میں آسانی کے ساتھ ساتھ قدیم ثقافت کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس صنعت پر حکومتی سرمایہ نہیں لگتا، تھوڑے سے فنڈز اور توجہ سے اس صنعت کو مسائل کے دلدل سے نکالا جا سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے اور آثار قدیمہ کی رپورٹس:
صادق حسن جو کہ سماجی رہنما ہیں ان کے مطابق پوری دنیا میں آرٹسٹ کمیونٹی کو پروموٹ کیا جاتا ہے اور انہیں اعزازی طور پر عزت بھی دی جاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق محکمہء آثار قدیمہ اور چین کی تین ریسرچ یونیورسٹیز نے خانپور کے قریب کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی مٹی کے برتن اور دیگر نوادارت 17 سو قبل مسیح دور کے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ فن اور صنعت کافی پرانی ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق محکمہء آثار قدیمہ پنجاب اور چینی آرکیالوجسٹ کی مشترکہ کاوشوں سے ٹیکسلا کے مقام پر بھی اسی قسم کے کھنڈرات ملے ہیں، جن میں مٹی کے برتن اور لوہے کے اوزار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ محکمہء آثار قدیمہ کے نمائندے ناصر خان نے بتایا کہ کھدائی دوران ہمیں ایسی نادر اشیاء ملتی ہیں جس سے ہمیں تاریخ شناسی اور قدیم تاریخ کے بارے میں سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان اور دیگر ایشیائی ملکوں مثلا بھارت، بنگلادیش اور سری لنکا کا موازنہ کیا جائے تو کمہار اور مٹی سے بنی اشیاء کی انڈسٹری کی حالت زار ایک جیسی ہے۔ اس موضوع پر جامعہ سندھ کے شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے ڈائریکٹر سعید منگی کا کہنا تھا کہ برِصغیر سے تعلق رکھنے والے کمہاروں کی بنیاد ایک ہی ہے، کیونکہ یہ سب ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے کام کی مہارت، مالی وسائل اور مسائل تمام ممالک میں ایک جیسے ہیں، کیونکہ یہ لوگ معیشت میں کوئی واضح رول ادا نہیں کر پاتے ہیں۔ اس لیے حکومتی توجہ بھی اس طرف مائل نہیں ہوتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کمہار جس نفاست سے کام کرتے ہیں ہم ان سے بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
ُُپروفائل:
ضلع ٹنڈوالہیار کا رہائشی فیروز کا تعلق اس طبقے سے ہے، جو صدیوں سے اس پیشے سے منسلک ہے۔ جس پیشے کو اپنانے کا خیال ہم لوگوں کے ذہنوں میں دور تک بھی نہیں آتا۔ یعنی مٹی کے برتن بنانا۔ جسے ظروف سازی یا کمہاروں کا پیشہ کہا جاتا ہے۔ فیروز کے آباٖ اجداد اس پیشے سے منلکس رہے ہیں۔ جب تک یہ سلور، کانچ، نام چنی اور پلاسٹک کے برتنوں کا رواج نہیں تھا، لوگ مٹی کے برتن ہی استعمال میں لاتے تھے۔ کہماروں کا گذر بسر بھی اس سے بخوبی ہو جاتا تھا۔ مگر موجودہ دور میں انتہائی حد تک پلاسٹک اور دیگر اشیاء سے بنے ہوئے برتنوں کے استعمال نے فیروز کے پیشے کو ایک بڑا زبردست معاشی جھٹکا لگا دیا ہے۔ اس کا خاندانی کام زوال پذیر ہے۔ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ میاں بیوی سمیت آٹھ افراد پر مشتمل فیروز کا خاندان بڑی غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ یہ کام انتہائی مشقت کا ہے۔ مٹی ڈھوکر لانا، اس کا گارہ بنانا پر اس سے مختلف اقسام کے برتن بنانا وار انہیں دھوپ میں سکھا کر کمال احتیاط سے مارکیٹ تک پہنچانا اس کے ذمہ داری ہے۔
اس مہنگائی کے دور میں کاروبار کی چلت نہ ہونے پر فیروز مالی مشکلات کا شکار ہے۔ فیروز اس قدر مشقت سے مٹی کے ذریعے جو مال بناتا ہے، مارکیٹ والے اسے اس کی اجرت بہت کم دیتے ہیں، فیروز سے سستے داموں خرید کر بازار میں مہنگے داموں بیچ کر خود نفع کماتے ہیں مگر فیروز کے گھر کی گاڑی سسک سسک کر چلتی ہے۔ اگر گھر میں اس کی بیوی یا بچوں میں سے کوئی بیمار ہوتا ہے تو غریب فیروز کے لئے علاج کے پیسے بھی بمشکل نکل پاتے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی یہ محنت سے دریغ نہیں کرتا۔ ہمارے ارباب اختیار فیروز جیسے کمہاروں کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں اور ان کی مالی معاونت کے لیے پروجیکٹ تشکیل دیے جائیں، تاکہ یہ صدیوں پرانہ پیشہ جو کہ خود ایک آرٹ بھی ہے بالکل ختم ہی نہ ہو جائے۔
مٹی کے برتنوں کے فوائد
اللہ نے انسان کے لئے بیشمار نعمتیں پیدا کی ہیں۔جن میں سے ایک نعمت مٹی ہے۔ہم اس مٹی سے اپنے گھر،سانچے،مٹی کے برتن اور دوسری ضر وریات زندگی کی اشیاء بناتے ہیں...مٹی قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے انسان کے لئے۔
جدیدیت نے ہماری زندگیوں پر اس طرح ک ا اثر ڈالا ہے کہ نہ صرف ہماری زندگی گزارنے کا طریقہ بدل گیا ہے بلکہ ہمارے کھانے،پینے کا انداز بھی مکمل طور پر بدل گیا ہے۔اس کی وجہ سے کیچن میں اس طرح کی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ہاں،پہلے خواتین کھانا پکانے کیلئے چولہا اور مٹی کے برتنوں کا استعمال کرتی تھیں،مگر اب ان کی جگہ گیس کے چولہے،فرج اور اوون،پریشر کوکوکر آگئے ہیں۔جدید طرز زندگی کی وجہ سے برتنوں کا استعمال فیشن سے باہر ہوتا جارہا ہے،لیکن پرانے زمانے میں مٹی کے برتنوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے لوگ کم بیمار پڑتے تھے۔لیکن جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی گئی مٹی کے برتن کچن سے غائب ہی ہوگئے۔لیکن کیا سب جانتے ہیں.کہ مٹی کے بنے کھانے صحت کیلئے اچھے ہیں؟
ان فوائد کے پیش نظر،مٹی کے برتن دوبارہ مارکیٹ میں آئے ہیں۔کھانا پکانے سے لے کر کھا نے تک،پانی پینے سے لے کر ذخیرہ کرنے تک،گھر و ں کی خوبصورتی سے دکانوں وغیرہ کی سجاوٹ تک ہر جگہ مٹی کے برتن استعمال ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے:
مٹی کے برتنوں کے فوائد کے حوالے ڈاکٹرز اور طبی ماہرین سے بات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ مٹی کے برتن کا استعمال صرف روایتی طور پر ہی نہیں کیاجاتابلکہ اس کے انسانی صحت پران گنت فوائد ہے۔لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اس بات سے انجان ہیں اور وہ شیشہ،پلاسٹک اور سٹیل وغیرہ کے برتن استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مٹی کے برتن میں پانی پینے کے چند اہم فوائد ہیں۔ پرانے زمانے میں مٹی کے گھڑے (مٹکا) میں پانی کو جمع کیا جاتا تھا اس وقت نہ بجلی تھی نہ ہی فریج جیسی کوئی چیز۔آج کے ڈاکٹرز بھی یہی کہتے ہیں کے مٹی کے گھڑے سے اچھی کوئی چیز نہیں،ان گھڑوں میں نہ صرف پانی ٹھنڈا ہوتا ہے،بلکہ مٹی کے عناصر بھی شامل ہوجاتے ہیں ...جوکہ انسانی صحت کیلئے بے حد فائدہ مند ہیں۔
قلمی صفت یا کھارا پن ہونا یہ مٹی کے برتن کی خاصیتوں میں ایک خاصیت ہے۔قلمی صفت یا کھارا پن ہونے کی وجہ سے مٹی کے برتن پانی کی تیزابیت کو ختم کرکے اس کا پی۔ایچ لیول متوازن رکھتا ہیں۔پانی کا پی۔ایچ لیول ٹھیک ہونے کی وجہ سے یہ معدہ کے درد میں کمی کا سبب بنتا ہے پیٹ درد معدہ کی سوزش، اور دیگر اندرونی درد سے چھٹکارے کا باعث بنتا ہے
ڈاکٹر راحیل قمرکے مطابق ٹھنڈا پانی گلے کے غدودکو نقصان پہنچاتا ہے۔جو اکثر کھانسی اور گلے کے دوسرے مسائل کی وجہ بنتا ہے اس کے برعکس مٹکے کا پانی ایک ہی درجہ پر برقرار رہتا ہے۔اس وجہ سے یہ کسی بھی قسم کے گلے کے مسائل کی وجہ نہیں بنتا۔گرمی میں مٹکے کا پانی استعمال کرنا جسم میں نیوٹریشن،وٹامن گلوکوزکو متوازن رکھتا ہے اور ہیٹ اسٹراک ے خدشے سے محفوظ رکھتا ہے۔مٹکے کا پانی دن بھر تازگی اور تسکین فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی صحت کو تحفظ دیتا ہے۔ مٹکے کا پانی قدرتی طور پر ٹھنڈا رہتا ہے اور ساتھ ہی مٹی کی معدنیاتی نعمت سے بھی بھرپور رکھتا ہے۔مٹکے کا پانی قدرتی طور پر بدلتے ہوئے موسم کے حساب سے ٹھنڈا رہتا ہے۔
جب دودھ اور گوشت وغیرہ کو مٹی کے برتن میں پکایا جاتا ہے،تو اس میں کیمیائی تبدیلی آتی ہے جو انسان کی صحت کے لئے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کا مزہ بھی دوبالا کرتی ہے۔
اگر صحت مند رہنا ہے تو پریشر کوکر کے بجائے مٹی کے برتن استعمال کئے جائے۔ان میں پکائیں اور کھائیں۔ ہمار ے جسم کو روزانہ ۸۱ قسم کی متناسب غذائی اجزاء کی ظرورت ہوتی ہے،جو مٹی کے برتنوں میں بنا،کھا کر آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہے۔ان مائیکرونیوترینٹ میں کیلشیم، میگنیشیم، سلفر،آئرن، سلیکین،کوبالٹ، جپسم وغیر ہشا مل ہیں۔ایک ہی وقت میں یہ تمام اجزاہ پریشر کوکر اور اوون جیسی چیزوں میں تباہ ہوجاتے ہیں۔لہذاکھانا،پکانا مٹی کے برتن میں کیا جائے۔
طبی ماہرین کے مطا بق مٹی کے برتن میں بنی دالیں اور سبزیاں ۰۰۱ فیصد مائکروغذائی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں جبکہ پریشر کوکر وغیرہ میں اجزاہ بلکل ختم ہوجاتے ہیں.....یہی وجہ ہے کہ غذا کے ماہر اور غذائیت پسندوں نے مٹی کے برتن استعمال کرنے پر زور دیا ہے۔کھانا مٹی کے برتن میں بنانے سے اس میں مٹی کی بہترین خوشبو آتی ہے اور کھا نا بھی لذیذہ لگتا ہے۔
مٹی کے برتن خوبصورتی کے معاملے میں بھی بہت پرکشش نظر آتے ہیں۔محض کچھ احتیاط کے ساتھ سنبھالنا پڑتا ہے۔ مٹی کے برتن دودھ کی دہی سے بنی ڈشزکیلئے بہترین ہیں۔مٹی سے بنے ہوئے برتنوں میں کھانا کھانا صحت کیلئے نہایت فائدہ مند ہے۔اس میں آئل کا استعمال بھی کم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ
کھانے کا مزہ بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔یہ سستے داموں آسانی سے مل بھی جاتے ہیں جس سے گھر کے بجٹ پربھی زیادہ اثر نہیں پڑتا۔
ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ مٹی کے برتن کے استعمال کے کیا فائدہ اور کیا نہیں ہیں۔اس میں قدرت نے کیا کیا فائدہ رکھا ہے۔مٹی کے برتن کے بے شمار فوائد ہیں۔اگر معدنیات،وٹامنز اور پروٹین کیلئے غذا کھاتے ہیں۔
مٹی کے برتنوں کے فوائد
اللہ نے انسان کے لئے بیشمار نعمتیں پیدا کی ہیں۔جن میں سے ایک نعمت مٹی ہے۔ہم اس مٹی سے اپنے گھر،سانچے،مٹی کے برتن اور دوسری ضر وریات زندگی کی اشیاء بناتے ہیں...مٹی قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے انسان کے لئے۔
جدیدیت نے ہماری زندگیوں پر اس طرح ک ا اثر ڈالا ہے کہ نہ صرف ہماری زندگی گزارنے کا طریقہ بدل گیا ہے بلکہ ہمارے کھانے،پینے کا انداز بھی مکمل طور پر بدل گیا ہے۔اس کی وجہ سے کیچن میں اس طرح کی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ہاں،پہلے خواتین کھانا پکانے کیلئے چولہا اور مٹی کے برتنوں کا استعمال کرتی تھیں،مگر اب ان کی جگہ گیس کے چولہے،فرج اور اوون،پریشر کوکوکر آگئے ہیں۔جدید طرز زندگی کی وجہ سے برتنوں کا استعمال فیشن سے باہر ہوتا جارہا ہے،لیکن پرانے زمانے میں مٹی کے برتنوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے لوگ کم بیمار پڑتے تھے۔لیکن جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی گئی مٹی کے برتن کچن سے غائب ہی ہوگئے۔لیکن کیا سب جانتے ہیں.کہ مٹی کے بنے کھانے صحت کیلئے اچھے ہیں؟
ان فوائد کے پیش نظر،مٹی کے برتن دوبارہ مارکیٹ میں آئے ہیں۔کھانا پکانے سے لے کر کھا نے تک،پانی پینے سے لے کر ذخیرہ کرنے تک،گھر و ں کی خوبصورتی سے دکانوں وغیرہ کی سجاوٹ تک ہر جگہ مٹی کے برتن استعمال ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے:
مٹی کے برتنوں کے فوائد کے حوالے ڈاکٹرز اور طبی ماہرین سے بات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ مٹی کے برتن کا استعمال صرف روایتی طور پر ہی نہیں کیاجاتابلکہ اس کے انسانی صحت پران گنت فوائد ہے۔لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اس بات سے انجان ہیں اور وہ شیشہ،پلاسٹک اور سٹیل وغیرہ کے برتن استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مٹی کے برتن میں پانی پینے کے چند اہم فوائد ہیں۔ پرانے زمانے میں مٹی کے گھڑے (مٹکا) میں پانی کو جمع کیا جاتا تھا اس وقت نہ بجلی تھی نہ ہی فریج جیسی کوئی چیز۔آج کے ڈاکٹرز بھی یہی کہتے ہیں کے مٹی کے گھڑے سے اچھی کوئی چیز نہیں،ان گھڑوں میں نہ صرف پانی ٹھنڈا ہوتا ہے،بلکہ مٹی کے عناصر بھی شامل ہوجاتے ہیں ...جوکہ انسانی صحت کیلئے بے حد فائدہ مند ہیں۔
قلمی صفت یا کھارا پن ہونا یہ مٹی کے برتن کی خاصیتوں میں ایک خاصیت ہے۔قلمی صفت یا کھارا پن ہونے کی وجہ سے مٹی کے برتن پانی کی تیزابیت کو ختم کرکے اس کا پی۔ایچ لیول متوازن رکھتا ہیں۔پانی کا پی۔ایچ لیول ٹھیک ہونے کی وجہ سے یہ معدہ کے درد میں کمی کا سبب بنتا ہے پیٹ درد معدہ کی سوزش، اور دیگر اندرونی درد سے چھٹکارے کا باعث بنتا ہے
ڈاکٹر راحیل قمرکے مطابق ٹھنڈا پانی گلے کے غدودکو نقصان پہنچاتا ہے۔جو اکثر کھانسی اور گلے کے دوسرے مسائل کی وجہ بنتا ہے اس کے برعکس مٹکے کا پانی ایک ہی درجہ پر برقرار رہتا ہے۔اس وجہ سے یہ کسی بھی قسم کے گلے کے مسائل کی وجہ نہیں بنتا۔گرمی میں مٹکے کا پانی استعمال کرنا جسم میں نیوٹریشن،وٹامن گلوکوزکو متوازن رکھتا ہے اور ہیٹ اسٹراک ے خدشے سے محفوظ رکھتا ہے۔مٹکے کا پانی دن بھر تازگی اور تسکین فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی صحت کو تحفظ دیتا ہے۔ مٹکے کا پانی قدرتی طور پر ٹھنڈا رہتا ہے اور ساتھ ہی مٹی کی معدنیاتی نعمت سے بھی بھرپور رکھتا ہے۔مٹکے کا پانی قدرتی طور پر بدلتے ہوئے موسم کے حساب سے ٹھنڈا رہتا ہے۔
جب دودھ اور گوشت وغیرہ کو مٹی کے برتن میں پکایا جاتا ہے،تو اس میں کیمیائی تبدیلی آتی ہے جو انسان کی صحت کے لئے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کا مزہ بھی دوبالا کرتی ہے۔
اگر صحت مند رہنا ہے تو پریشر کوکر کے بجائے مٹی کے برتن استعمال کئے جائے۔ان میں پکائیں اور کھائیں۔ ہمار ے جسم کو روزانہ ۸۱ قسم کی متناسب غذائی اجزاء کی ظرورت ہوتی ہے،جو مٹی کے برتنوں میں بنا،کھا کر آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہے۔ان مائیکرونیوترینٹ میں کیلشیم، میگنیشیم، سلفر،آئرن، سلیکین،کوبالٹ، جپسم وغیر ہشا مل ہیں۔ایک ہی وقت میں یہ تمام اجزاہ پریشر کوکر اور اوون جیسی چیزوں میں تباہ ہوجاتے ہیں۔لہذاکھانا،پکانا مٹی کے برتن میں کیا جائے۔
طبی ماہرین کے مطا بق مٹی کے برتن میں بنی دالیں اور سبزیاں ۰۰۱ فیصد مائکروغذائی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں جبکہ پریشر کوکر وغیرہ میں اجزاہ بلکل ختم ہوجاتے ہیں.....یہی وجہ ہے کہ غذا کے ماہر اور غذائیت پسندوں نے مٹی کے برتن استعمال کرنے پر زور دیا ہے۔کھانا مٹی کے برتن میں بنانے سے اس میں مٹی کی بہترین خوشبو آتی ہے اور کھا نا بھی لذیذہ لگتا ہے۔
مٹی کے برتن خوبصورتی کے معاملے میں بھی بہت پرکشش نظر آتے ہیں۔محض کچھ احتیاط کے ساتھ سنبھالنا پڑتا ہے۔ مٹی کے برتن دودھ کی دہی سے بنی ڈشزکیلئے بہترین ہیں۔مٹی سے بنے ہوئے برتنوں میں کھانا کھانا صحت کیلئے نہایت فائدہ مند ہے۔اس میں آئل کا استعمال بھی کم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ
کھانے کا مزہ بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔یہ سستے داموں آسانی سے مل بھی جاتے ہیں جس سے گھر کے بجٹ پربھی زیادہ اثر نہیں پڑتا۔
ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ مٹی کے برتن کے استعمال کے کیا فائدہ اور کیا نہیں ہیں۔اس میں قدرت نے کیا کیا فائدہ رکھا ہے۔مٹی کے برتن کے بے شمار فوائد ہیں۔اگر معدنیات،وٹامنز اور پروٹین کیلئے غذا کھاتے ہیں۔
Comments
Post a Comment