Group 12 Compiled حیدرآباد کے فٹ پاتھ کے دستکار

Group no 12 ...
Topic (Hyderabad main Diyaldas Club k nazdeek ki jany waly Dastkari)...
Group members.
1- Faisal Rehman 2k17/MC/29
2-Arham khan 2k17/MC/18
3- Sadia Younas 2k17/MC/137


  فیصل رحمٰن  
گروپ نمبر:  12
گروپ میمبران۔                 
  فیصل رحمٰن  
 (الف)  انٹرو،  حیدرآباد کی دستکاری،  جائزہ،   دستکار  خاتون کی  پروفائل 
ارحم خان
 (ب)  دستکاروں سے بات چیت،ان لوگوں کی اس پیشے سے وابستگی دستکاروں کی معاشی زبوں حالی
MC/137  سعدیہ یونس   
 (ج)   مذہبی لحاظ سے ان کو کمتر کیوں سمجھا جاتا ہے؟  دستکا روں کے بچوں کی تعلیم سے محرومی،  حکومتی عدم سرپرستی۔
   
حیدرآباد  کے فٹ پاتھ  کے دستکار

          دستکاری کا ہنر کئی سو سال پرانا ہے۔ہر زمانے میں انسان اپنے ہاتھوں سے مختلف چیزیں بناتے رہے ہیں۔کبھی انسانوں نے پتھروں کو تراش ایک خوبصورت مجسمے کی شکل دی تو کبھی لکڑی پر اپنے ہاتھوں کے جوہر دکھائے۔ہر دور میں انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے ایسے کئی ہی  فن،نقش ونگار اور ایسی کئی ہی  ہزاروں منفرد اور مختلف چیزیں بناتے رہے ہیں جو کہ ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اسی طرح آج بھی دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کہ دستکاری کے ہنر سے وابستہ ہیں اور بہت سی سادہ چیزوں کو اپنے اس ہنر کی بدولت انتہائی دلکش اور دلفریب بنا دیتے ہیں کہ دیکھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے۔دستکاری کسی بھی علاقے کی ثقافت اور اس کے تہذیبی تمدن کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

پاکستان ہنڈی کرافٹ ایسوسیشن کی رپورٹ کےمطابق  ہرشہر کی اپنی دستکاری کی الگ پہچان ہے، اپنا ثقافتی رنگ ہے، سرگودھا کی دستکاری کا   ¿ چبا مشہور ہے ملتان دستکاری میں اونٹ کی کھال سے بنے خوبصورت نقش ونگاری کے لیمپ اور مٹی کے بلو رنگ کے برتن سے مشہور ہے۔ پشاور کی بنی پشاوری  چپل مشہور ہے، بلوچستان کی دستکاری میں ریلی،کارپیٹ،بلینکٹ وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں،اسی طرح سندھ کی ثقافت کی بھی الگ پہچان ہے،  جس میں اجرک،سندھی ٹوپی، مٹی کے برتن،چٹا ئیاں، مخصوص نقش و نگاری کے پردے اورگھر کی سجاوٹ کے لیے دوسری  چیزیں شامل ہیں۔

دستکار ایک آرٹسٹ ہوتاہے جو کہ اپنے آرٹ سے ایک سادہ اورعام فہم چیز کو بھی اس خوبی سے اپنے ہاتھ سے ڈیزائن کرتا ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔دنیا بھر کی طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف قسم کی دستکاری کی جاتی ہے۔دستکاری کا یہ سلسلہ کئی برسوں سے چلتا آرہا ہے۔

    حیدرآباد کی دستکاری
پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح حیدرآباد میں بھی چند ایسے خاندان موجود ہیں جو کہ دستکاری کے اس ہنر سے وابستہ ہیں،اور کئی دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔دستکاری کا یہ پیشہ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے کا ہے۔اسی لیے دستکاری کے اس ہنر کو پاکستانی ثقافت کی بجائے سندھ کی ثقافت کہا جاتا ہے۔یہاں پر کام کرنے والے ذرائے معاش کی غرض سے کئی سال قبل سندھ کے علاقے تھر سے حیدرآباد آ کر آباد ہوئے تھے۔یہ لوگ حیدرآباد میں دیالداس کلب کے نزدیک روڑ کی دونوں اطراف فوٹ پاتھ پر دستکاری کی چھوٹی سی دنیا آباد کئے، اپنے ہاتھو ں سے بنائی ہوئی مختلف چیزیں سجائے بیٹھیں ہیں۔
 
جہاں سندھ کے دوسرے شہروں میں مٹی،پتھر،کپڑے پر دستکاری ہوتی ہے تو وہی حیدرآباد کے یہ منفرد دستکار بھانس اور پھونس سے دستکاری کے مختلف نمونے بناتے ہیں۔یہ لوگ بھاس اور پھونس سے کرسیاں،پردے،چکیں، میزیں، دیواری سجاوٹ اور بچون کے مختلف کھلونے وغیرہ بناتے ہیں۔دیواری سجاوٹ میں انہیں خاص مہارت حاصل ہے۔دیواری سجاوٹ کی چیزوں میں تصاویر ،اجرک پرنٹ اور چھوٹے شیشے کے ٹکڑے بھی استعمال کیے جاتے ہیں جو کہ سندھی آرٹ کا خاصہ بھی ہے۔خصوصی آرڈر پر یہ لوگ پھولوں کے پیچیدہ ڈیزائن، نقشے، خطاطی اور دیگر چیزیں بھی بناتے ہیں۔

 دستکاری پیشے وابستہ خاندان  اور اس کام پر ہونے والی محنت:         
            یہ چند ہی مخصوص خاندان باقی ہیں جو کہ اپنے آباؤ اجداد اور سندھ کے اس قدیمی ورثے کو سنبھالے ہوئے ہیں۔حیدآباد میں اس دستکاری سے وابستہ چالیس سے پچاس گھرانے موجود ہیں،جوکہ اسی دیالداس کلب کے پیچھے کچی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔یہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ صبح سے لے کر رات تک محنت کرتے ہیں۔صبح سے لے کر رات دیر تک یہ لوگ وہی فوٹ پاتھ پر اسٹریٹ لائٹ پر کام کرتے ہیں۔اس پیشے وابستہ ایک عورت ثمینہ شیخ  کا کہنا تھا کی جتنی صفائی اور دل جوئی سے کام کیا جائے اتنا ہی گاہک متوجہ ہوتا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ سب سے مشکل کام سجاوٹی اشیاء بنانا ہے،کیونکہ ان سجاوٹی اشیاء میں جو شیشے کے ٹکڑے اور مختلف رنگھوں کے داگھے  کے استعمال میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے،اور بہت باریکی سے یہ کام کرنا پڑھتا ہے۔شیشے کے مختلف ڈیزائن کے کٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو بھانس کی کانی پر رکھ کر مختلف رنگ برنگے داگھوں سے لگایا جاتا ہے۔ایک بہتریں سجاوٹی چیز کو تیار کرنے میں دو سے تین لگتے ہیں باقی اس کے علاوہ میز، کرسیاں،پردے وغیرہ بنانے میں بھی کافی محنت درکار ہوتی ہے لیکن ان میں وقت کم لگتا ہے۔اور سجاوٹ کی زیادہ تر اشیاء ان کی خواتیں ہی تیار کرتی ہیں۔

دستکاروں سے با ت چیت 
  ہنر بادشاہ اور تعلیم وزیر ہے یہی سوچ ہے جو لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ غریبی انسانیت پر سر چڑھ کر بولتی ہے۔  دستکاری  وہ  واحد پیشہ ہے جہاں مصنوئی پرندوں کی مانند خوبصورت نقش ونگاری کونہ کسی انڈسٹری میں تیار کیا جاتا ہے نہ کسی والڈ وائٹ کمپنی میں بلکہ گھر کی خوبصورت تیزئین و آرائیش کے لیے یہ اشیاء دیہی علاقوں کی خواتین خوداپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں۔  دستکاری کا کام کرنے والے جو کہ خود ۰۸سال قبل سندھ کے ضلع تھر سے آئے تھے، حیدرآباد دیالداس کلب کے سامنے دستکاری کا پیشہ سر انجام دے رہے ہیں،جن کے آباؤاجداد کا تعلق راجھستان سے تھا۔ہم نے جب ان دستکاروں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ دستکاری کا سازو ساماں پنجاب سے لایا جاتا ہے لیکن سندھ کی ثقافت کی چھاپ یہاں لگائی جاتی ہے، مختلف رنگوں کی نقش و نگار  اپنے فن سے تیار کرنے کے بعد فروخت کی جاتی ہیں۔ ان نقش ونگاری  میں مختلف مصنوئی پرندے بنائیں جاتے ہیں۔ دستکاری کے پیشے میں کا م کرنے والے سوریش کمار کے مطابق دو سال قبل دستکاری کا سامان جو کہ ایک پردے کا دستہ فی فٹ 80 سے  100 روپے پڑھتا تھا۔ جس کو مزید نقش ونگاری سے خوبصورت بنایا جاتا تھا  اور اُسکی مالیت ۰۰۳ ہو جاتی تھی،لیکن اب وہ فی  فیٹ دستہ ہمیں ۰۰۳ کا پڑ ھتا ہے جو کہ مزید کام ہونے کے بعد ملیت کے اعتبار سے ۰۰۷ روپے فٹ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دن بھر میں ہماری درجن کے قریب مختلف چیزیں تیار ہوجاتی ہیں،دستکاری کا یہ پیشہ زبوں حالی کاشکارہونے کی سب سے بڑی وجہ وسائل میں کمی ہے۔ ہم اگر گھر کی تزئین و آرائش کے لیے پردہ، سیندری،سٹول،جھولا، بناؤ سنگھار کے لیے شیشہ تیار کربھی لیں،لیکن پھر بھی ہم خریدار کا انتظار یہی کرتے ہیں۔ وسائل کی کمی کے وجہ سے دوسری دوکانوں یا برآمد کرنے کے لیے دوسرے شہروں کا رخ نہیں کرسکتے۔

اس پیشے سے وابستگی:
                راہول جیت جوکہ خود ۵۶ سال قبل حیدرآباد دیالداس کلب کے سامنے دستکاری کا پیشہ اپنائے ہوئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہنر بادشاہ اور تعلیم وزیر ہے یہ ہمارے باپ دادا کا قول ہے۔ جنھونے ہمیں ہنر سکھایا، اور اس بات کی تلقین بھی کی ہنر سیکھوگے تو بادشاھ بنوگے اور تعلیم حاصل کروگے تو کسی سرکاری یا نجی محکمے میں غلام ہی رہوگے۔اسی طرح اشوق کمار جوکہ پچھلے ۰۱ سال سے دستکاری کا کام سرانجام دے رہے ہیں ان کے مطابق اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی ہم غلامی کی زندگی میں جینا نہیں چاہتے، ہم غیر مذہب کو حقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے لیکن پھر بھی معاشرہ ہمیں زات، رنگ روپ کم تر سمجھ کر حقیر جانتا ہے۔ہم بھی معاشرے میں آزادنہ رہن سہن کے لیے    خوا ہئش رکھتے ہیں۔  ہم بھی دوسروں کی طرح اپنے حق لینا چاہتے ہیں لیکن غریب کی مجبوری کا سُنا تو دور کی بات ہے آج تک کوئی حکومتی نمائندہ  ہمارے اس کاشتکاری کے ہنر کو سر اہانے نہیں آیا،برعکس  اسکے اگر ہمارے بچے  جن اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں وہاں کولی یا نیچلی زات  کے نام سے جانے جاتے ہیں ان بچوں سے غیر منسفانہ روایا رکھا جاتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہمارے بچے تعلیم حاصلکرنے سے بھی محروم رہ جا تے ہیں۔ اگر تعلیم حاصل کر بھی لیں تو ایسے کئی بچے ہیں جنھیں سرکاری ملازمت تونہیں کم ذات کا ہونے کے باعث سرکاری ملازم کے گھر  چوکیدار یا آیا کی ملازمت کرنی پڑھتی ہے۔

       یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی بچوں کا ہنر سیکھاتے ہیں اور انھیں اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ سندھ کی ثقافت کاہنرزاوال پزیر نہ ہو۔  دستکاری کا یہ پیشہ آباؤ اجداد کے عطا کرتے ہنر کے باعث ہے یہی وجہ ہے کہ دستکاری کا یہ ہنر پس مانندہ نہیں ہوسکتا،اگر چہ  دورِ جدید میں الیکٹرونک پرینٹنگ کی مانگ بڑھ گئی ہے لیکن ہاتھ سے بنے خوبصورت نقش کی پہچان الگ ہی  دیکھی جاسکتی ہے۔جہاں ریڈی میٹ کاڑھائی نے نقش و نگار ی کی خوبصورتی کو مدھم کردیا ہے وہی دستکاری کا ہنر آج بھی معقول حیثیت رکھتا ہے۔آج کے جدیدد ور میں بھی دستکاری کی اہمیت سے آشنا لوگ گھر کی تیزئین وآرائش کے لیے اپنی من چاہا چیزیں خریدکر لے جاتے ہیں۔ جن میں چاٹائیاں،جھولا، دیواری نمائش کے لیے  پردا،سیندری،اور بناوں سینگھار والے شیشے شامل ہیں۔
  مذہبی لحاظ سے ان کو کمتر کیوں سمجھا جاتا ہے؟
                              ذات پات یا نظام ذاتیات ہندوں میں قدیم زمانے میں ایک نظام پایا جاتا تھا جس کی تہد زمانہ قدیم ہندوں معاشرے کو چار ذاتوں میں تقسیم کر دیا گیاپہلا مذہبی گروہ برہمن جو کہ علم او مذہب کے محافظ تھے اور دوم چھتری اور کھتری جو کہ دنیاوی امور کے محافظ تھے اور سوم ویش جو کہ زراعت اور تجارت سے دولت پیدا کرتے تھے چہارم ہندوں ذات شوودر ہے جو کہ خدمت کرنے کے لئے مخصوص تھے ان سب پیشوں کے لحاظ سے آگے کئی قسمیں ہوگئیں۔بدھ مذہب نے اس ذات پات کی تفریق کو مٹانے کی کوشش کی لیکن یہ مٹ نہ سکیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ اچھوت اور اچھوت قومیں وجود میں آئیں۔جن کی زندگی اب بھی باوجود علم کے نہایت تلخ گزر رہی ہے۔اور عام انسانی حقوق بھی ان سے محروم رکھا جاتا ہے۔اچھوت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں چھونا بھی براخیال سمجھا جاتا ہے۔یہ لوگ اپنے معاشرے میں کم تر خیال سمجھے جاتے ہیں۔نیز انکے معاشی حالات بھی انتہائی نہ گفتہ ہوتے ہیں۔ 

                                         ان کو مذہبی لحاظ سے بھی کم تر سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ انکی ذاتوں میں سب سے ذیادہ نچلے درجے کی یہ چند ۴ذاتیں ہیں۔جو کہ ہندوں براددری میں کم تر سمجھی جاتی ہیں۔اچھوت عشق اور کچی ذات ان میں نچلے درجے کی ذاتیں مانی جاتی ہیں۔اور انھیں انسانی حقوق سے بھی محروم رکھتے ہیں اور ان کو ہر لحاظ سے محرومیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان لوگوں کے بچوں کو نہ تو بہتریں اسکولوں کی تعلیم دی جاتی اور نہ کوئی ہنر دیا جاتا ہے۔ حیدآباد دیالداس کلب کے باہر بیٹھی یہ قوم نہ تو انکے پاس رہنے کے لئے گھروں کی آسائش ہے نہ ہی ضرورت کی اشیاء موجود ہے ان لوگو ں نے فوٹپاتھ کو ہی اپنا گھر بنا رکھا ہے اٹھنا بیٹھنااور سونا یہ لوگ اپنی زندگی فوٹپاتھ پر ہی گزر بسر کر رہے ہیں۔بہت سے لوگ جن کے آباووجدادجو کہ ۰۸  سال سے اس دستکاری کے ہنر کو لے کر آج بھی اپنی زندگی اسی فوٹپاتھ پر گزار رہے ہیں۔

        دستکاروں کے بچوں کی تعلیم سے محرومی:
 یہ لوگ ذیادہ تراپنے آباووجدادکی باتوں پر عمل کرتے ہیں فوٹپاتھ پر دستکاری کا کام کرتے وقت ایک نارو جوگی سے ہم نے پوچھا کہ وہ اس کام کے علاوہ کوئی دوسرا کام کے ہنر کو کیوں نہیں اپناتے تو انھوں نے بتانا کہ ہمارے بڑے یہ کام  ۰۰۱  سال سے کرتے ہوئے آرہے ہیں جب یہ حیدرآباد دیالداس کلب کی تعمیر بھی نہیں تھا  اور نہ ہی کوئی گورنمینٹ کی کاکوئی دفتر یہاں موجود تھا اور یہروڈ جب ایک ہوا کرتا تھا۔ اور ہمارے بڑوں نے کہا ہے کہ اپنے اس دستکاری کے ہنر کو نہیں چھوڑنا اسی لئے ہم لوگوں نے اس دستکاری کے ہنر کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے اور یہی پیشہ ہمارا نسل در نسل چلتا ہوا آرہا ہے۔
    ان لوگوں کا تعلق حیدرآباد  سے ہے اور ان لوگوں میں کئی لوگ بدین مٹھی ماتلی اور تھر کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان لوگوں کی کمائی کا سبب بس یہی دستکاری ہے اور باقی کچھ لوگ بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں۔بچے اور بچیاں سڑکوں اور گلی گلی جا کر بھیک مانگتے ہیں۔اور اپنی زندگی گزربسر کرتے ہیں۔ان میں سے کچھ خاندان ایسے ہیں جن کے بچے اور بچیاں لڑکیاں اور لڑکے گھروں اور بنگلوں میں جھاڑو اور پوچھا لگانے  اور لڑکے مالی کا کام کرکے اپنا گھر کا خرچ پورا کرتے ہیں۔ان لوگوں کے بچے اور بچیوں کے پاس تعلیم کی سہولت موجود نہیں ہوتی کیونکہ ان کی نچلی ذات کی وجہ سے ان لوگوں کو دھتکار دیا جاتا ہے اور لوگ ان کو اپنی گھریلو ں اشیاء میں ہاتھ نہیں  لگانے دیتے یہی وجہ ہے جس سے ان کے بچے  تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں۔

دستکاروں کی معاشی زبوں حالی
                       سرکاری سطح پر عدم توجہ کے باعث زبوں حالی کا شکار ہونے والا یہ د ستکاری کا ہنر سندھ کی ثقافت کی تنزلی کی  وجہ بھی بنتا جارہاہے دستکاروں کا کہنا ہے کہ سرکاری  اداروں کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمیں  رہنے اور کام کرنے کے لیے سڑک پر جگہ دی ہوئی ہے ہمارا پیشہ کم آمدنی کا ضرور ہے لیکن کسی کی چاپلوسی کرنے کی عزت گوارا نہیں کرتی۔اگر ہمیں اپنی مجبوریوں،وسائل کی کمی، اور مسائل کے بہتات پر حکومت سے اپیل کرنے کا خیال آبھی جا تا ہے تو ہم اس خیال کو یہ سوچ کر رد کردیتے ہیں کہ جوسرکاری  ملازم ہیں وہ خود آئے دن اپنی تنخواہوں کی ادئیگی کا رونا روتے اور  پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہیں تو ہم نیچلی ذات والے ہماری سنوائی کیوں کر ہوگی؟،مہنگائی کے باعث دستکاری کی کاڑھائی،بنائی کا سامان بھی  مہنگا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے دستکاری  اپنا پیشہ چھوڑ کر  فیکڑیز میں کام کرنے پر مجبور ہیں یہ بھی وجہ ہے کہ دستکاری کی کاڑھائی بنائی کا کام مدھم ہوتا جارہا ہے  ترقی پزیر قوموں کی یہ پہچان ہے کہ وہ اپنی ثقافت کوکبھی تنزلی کا شکار نہیں ہونے دیتی دنیا میں پنپنے کے لیے اپنی ثقافت کو مستحکم رکھنا ضروری ہے سندھ کی ثقافت کو زوال سے بچانے کا سب سے بڑھ کر زریعہ ہے کہ دستکاری کے عمل کو جاری و ساری رکھا جائے۔

حکومتی عدم سرپرستی
                    ذیادہ تر لوگ جو کہ اس دستکاری کے پیشے سے تعلق رکھتے ہیں ان کو حکومتی طور پر کئی بھی کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی یہ لوگ اپنے اس دستکاری کے پیسوں سے اپنا زندگی کا گزاراکرتے ہیں۔سندھ کی اس قدیم ثقافت زندہ رکھنے کے لیے حکومی سطح پر کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا،نہ ہی آج تک کوئی حکومتی نمائندہ ان کے پاس ان کے مالی مسائل سننے آیا اورنہ ہی کسی نے  اس ہنر کی  پستی پران کے سر پر دست شفقت رکھا۔سندھ کی اس قدیم ثقافت کو زندہ رکھے ان لوگوں اور بچوں کے سروپرآج بھی چھت نہیں اور ان کے ذاتی گھر نہیں۔حکومت کی جانب سے کئی بار ان سے جگہ دینے کا وعدہ تو کیا گیا پرافسوس حکومت کے دوسرے وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔  یہ لوگ فاٹپاتھ پر ہی سوتے ہیں اور وہیں پر کھانے پینے کی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر خواتین اس دستکاری کے کام کرتی ہیں سجاوٹ وغیرہ میں خواتین ہی ان سجاوٹی چیزوں کو اجرک  سے سجاتی ہیں اور موتی شیشے وغیرہ کا استعمال کرکے اس کی بناوٹ میں خوبصورتی لاتی ہیں۔ان میں سے کچھ خواتین سے ہم نے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ہم لوگ اس کام کو محنت سے کرتے ہیں اور اس سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں مگر دوسرے لوگ اس فوٹپاتھ پر بیٹھ دستکاری کے کام کرنے کو سہی نہیں سمجھتے اور اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں اور غلط سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس یہ ہنر ہے اور ہمیں اس دستکاری کے کام شوق ہے اسی لئے ہم اس دستکاری کے کام کرتے ہیں اسی سے اپنی دال روٹی کا گزارا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ُپروفائل۔
ثمینہ شیخ  دستکار خاتون
    ہمارے معاشرے میں خواتیں کو صنف نازک سمجھا جاتا ہے اور ایک عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ خواتیں کمروز اور کم ظرف ہوتی ہیں۔لیکن خواتیں بہت مرتبہ یہ ثابت بھی کر چکیں  ہیں خواتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اہلییت رکھتی ہیں۔اسی طرح کی ایک دستکار محنتی خاتون ثمینہ شیخ ہے جو کہ دیالداس کلب کے سامنے روڑ کے فٹ پاتھ پر دستکاری کی اپنی ہی چھوٹی سی دنیا آباد کیے بیٹھی ہے۔دنیا کی سرگرمیوں سے بے خبر اپنے کام میں مگن بیٹھی یہ اپنی دستکاری کے مختلف نمونے بنا رہی ہوتی ہے۔ 
ثمینہ شیخ جس کا پرانہ نام راکھی تھا،آج سے تقریبا ۶۱ برس پہلے اس نیاپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر کے اپنا نام ثمینہ شیخ رکھا۔ثمینہ شیخ جس کے خاوندنے مذہب کی تبدیلی کے بعد اس سے راہیں جدا کر لیں۔لیکن اس با ہمت خاتون نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے خود کو اس قابل بنانا چاہا کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ثمینہ شیخ نے آج سے ۶۱ پہلے اس دستکاری کے ہنر کو پیشے کے طور پر اپنا لیا۔اور دستکاری کا ہنر سیکھنا شروع کیا۔وہ اپنے گھر کی واحد کفیل تھی۔

                      ثمینہ کے ۲ بیٹے اور ۲ بیٹیاں ہیں۔اس کی بھی خواہش تھی کہ اس کے بچے پٹرھیں اور وہ ہر گز ایسی زندگی نہ گزاریں جیسے وہ فٹ پاتھ پر بیٹھی ہوئی ہے۔لیکن قسمت اور حالات نے اس بات کی اجازت نہ دی اور ایک بیٹا اور ایک بیٹی صرف تیسری جماعت تک ہی تعلیم حاصل کے سکے۔مالی حالات اتنے بہتر نہ تھے کہ بچوں کو آگے پڑھا سکتیں۔حالات اور وقت کو دیکھتے ہوئے بچوں نے بھی اپنی ماں کے ساتھ یہی دستکاری کا کام کرنا شروع کر دیا،اور اسے اپنا روز گار بنا لیا۔
ثمینہ شیخ ایک سادہ دل اور نرم گو خاتون ہیں۔اپنے ہاتھ سے بنائے ان کے خوبصورت نمونے اور مقدس نام دیکھنے والوں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ان نمونوں کو دیکھ کر گاہک دم بخود چلے آتے ہیں۔قدردان ین کی محنت کے مطابق معاوضہ بھی ادا کرتے ہیں۔ان کے مطابق اس طرح کے قدردان اور گاہک کم ہی بچے ہیں کیونکہ یہ دور مشینی دور ہے اب لوگ ان نمونوں سے زیادہ کمپیوٹرائز وال پیپر اور ڈیزائیننگ پینٹنگز کو ترجیح دے رہے ہیں۔کیونکہ وہ زیادہ تر پر کشش اور رنگیں ہوتی ہیں۔اسی لیے شہری اس دستکاری کے نمونوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ثمینہ شیخ کا کہنا تھا کہ ویسے تو مختلف نمونے بنائے جاتے ہیں لیکن تنکوں اور ولویٹ کے کپڑے سے بنی قرآنی آیات،مقدس،ہستیوں کے نام اس ہنر کو تقوت بخشتے ہیں اور اکثر لوگ ان سے اپنے نام کے بھی  ڈیزائن فرمائش پر بنواتے ہیں۔
                معاشرے کی ددکار اور طنز بھری نگاہیں آج بھی ثمینہ شیخ کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکیں۔بلکہ اس کا کہنا تھا کہ ان سب باتوں سے میں ہمت نہیں ہارتی بلکہ میرا حوصلہ اور بھی بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ 
ثمینہ کے ہاتھ سے بنائے ہوئے دستکاری کے چند نمونے جامعہ سندھ کی بینظیر آرٹ گیلری میں سندھی ثقافت کے طور پر سجائے ہوئے ہیں۔ ثمینہ کا کہنا تھا کہ میرے لیے یہ سب سے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں سندھی ثقافت یہ نمونے بنا رہی ہوں۔
                                                                              




Comments

Popular posts from this blog

نياز اسٽيڊيم حيدرآباد Chhachhar group

Raheel Jarwar

ameet kolhi sindhi feature