Group 9 پلاسٹک بیگز کی بندش

To be checked

Kashan Sikandar-2K17/MC/51
Syed Hamza Hussain-2K17/MC/98
BS-III
Investigation Report
Group 9
پلاسٹک بیگز کی بندش
تعارف:
کچھ دہائی پہلے ہی کی توبات ہے جب کوئی بھی پلاسٹک بیگ کا استعمال نہیں کرتاتھا بلکہ ہمارے آس پاس لوگ گھر کا سامان گویا سبزی ہو یا پھر راشن سب کچھ کپڑے سے بنے تھیلے یا پھر کجھور کی چھال سے بنی ٹوکریوں میں ہی لاتے تھے جبکہ دودھ اور دہی بھی لینے جاتے تو گھر سے اپنا برتن لے کر جاتے تھے اور شاید وہ صحیح کرتے تھے کیونکہ جس طرح آج شاپنگ بیگ کو ماحول دشمن اور صحت دشمن قرار دے کر پابندی لگائی جارہی ہے۔اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائے تو احساس ہوگا کہ اب ہمیں کپڑوں سے بنے بیگز کی کتنی ضرورت ہے۔ 
1965میں سوئیڈن کی ایک کمپنی کی جانب سے پلاسٹک بیگز متعارف کروائے گئے جو آج پوری دنیا میں استعمال ہورہے ہیں۔پاکستان کی بات کی جائے تو 80ء کی دہائی میں یہ شاپنگ بیگزیا پلاسٹک بیگز پاکستان میں استعمال ہونے لگے  اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں عام ہوگئے۔گزشتہ کئی دہائیوں میں ماحول کو آلودہ کرنے میں جس قدر کردار ان پلاسٹک بیگز نے ادا کیا ہے وہ شاید کسی اور نے کیا ہو۔
پلاسٹک بیگز کا استعمال:
مسلم لیگ ن کے دورہ حکومت میں وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی مشاہداللہ خان نے سینیٹ میں بیان دیا تھا کہ پاکستان میں سالانہ 55ارب پلاسٹک بیگز استعمال ہوتے ہیں جس کے بعد نہ صرف ماہرین بلکہ قانون سازاداروں اور عوام کی اکژیت کو پریشان کردیا تھا۔
پلاسٹک بیگز کا استعمال وطن ِ عزیز میں اس قدر زیادہ ہے کہ بچے چند روپے کی اشیاء خریدنے یا بڑے ہزاروں کی خرید کر اپنا سامان ان ہی بیگز میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔آج کے نوجوان کپڑے کے بنے تھیلے ساتھ لے جانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔بلکہ ہمارے ہاں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھائی جان ذرا شاپر ڈبل تو کردیں موٹرسائیکل پر سے سامان گر نہ جائے۔10روپے کا دھنیاہو یا پھر 500کا پھل ہمیں انہی پلاسٹک کے بیگز میں سامان ڈالنا ہے۔جانتے بوجھتے کے یہ صحت اور ماحول لے لئے فائد ے مند نہیں ہیں پھر بھی ہم پلاسٹک بیگز کابے جا استعمال کرتے ہیں۔تھوڑا غور کرتے ہیں پلاسٹک بیگز کے استعمال کی صورت میں پیش آنے والے نقصانات پر۔
پلاسٹک بیگز کے نقصانات:
جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق پلاسٹک بیگز کے استعمال میں اضافہ انسانی صحت لے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ WWFکی ایک طبی تحقیقی رپورٹ  ''قدرتی ماحول کو پلاسٹک سے بچائیں "کے مطابق انسانی جسم میں مائیکرو پلاسٹک نہ صرف شامل ہے بلکہ ہر انسان اوسطا ہر ہفتے پانچ گرام پلاسٹک کھا جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر پلاسٹک ہر پاکستانی کی غذا کا حصہ بن جاتا ہے۔
پلاسٹک بیگز کے نقصانات کے حوالے سے جامعہ سندھ کے شعبہء انوائیرمینٹل سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر سارہ صدیقی نے کچھ معلومات فراہم کیں۔
  ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک بیگز میں اشیاء خوردونوش کو ڈالنا انتہائی خطرناک ہے۔تحقیق کے مطابق شاپنگ بیگ میں استعمال ہونے والی خوراک بھی استعمال کے قابل نہیں ہوتی جبکہ کہا جاتا ہے کہ پلاسٹک دو سوسال تک اپنی اصل حالت برقرار رکھتا ہے۔جس جگہ اس کو پھینکا جاتا ہے وہاں زمین کی ذرخیزی بھی ختم ہوجاتی ہے۔
پلاسٹک بیگز سے نالیوں اور سیوریج کا بند ہونا ایک عام دی بات بن چکی ہے۔پلاسٹک سے بیگز کے استعمال سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے بلکہ انسانی صحت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ان پلاسٹک بیگزکو جلانے کی صورت میں جو دھواں پیدا ہوتا ہے وہ ہماری آنکھوں اور جلد کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔دھوئیں سے نکلنے والا کیمیکل ہوا میں شامل ہوکر گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہا ہے اپنی ان منفی خصوصیات کی وجہ سے یہ پلاسٹک بیگز ہمارے ماحول کے لئے سنگین خطرہ ثابت ہو رہے ہیں۔
آبی حیات پلاسٹک بیگز کی زد میں:
 سمندر میں جب ہم اورآپ تفریح کے غرض سے جاتے ہے تو بے تحاشہ پلاسٹک کے بیگز سمندر میں پھینک دیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر میں موجود آبی حیات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔تقریبا ہر سال ایک لاکھ کے قریب سمندری حیات جن میں ڈولفن،کچھوے،وہیل مچھلی اور پینگوئن شامل ہیں وہ ان پلاسٹک بیگز کی وجہ سے مر جاتے ہیں کیونکہ وہ انہیں خوراک سمجھ کر کھاجاتے ہیں جوکہ بعد میں ان کی موت کا باعث بنتے ہیں۔ WWF(ولڈ وائڈ فنڈ)کی رپورٹ کے مطابق 2025تک ہر تین ٹن مچھلیوں کے وزن کے مقابلے میں سمندر کے اندر ایک میٹرک ٹن پلاسٹک موجود ہوگا جبکہ 2050تک مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک سمندر کا حصہ ہوگا۔
پلاسٹک بیگز کے استعمال پر ڈاکٹر کی رائے:
حیدرآباد کے بھٹائی ہسپتال کے ڈاکٹر عابد قائمخانی سے جب پلاسٹک بیگز کے استعمال کے بارے میں ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کے فضلے سے مختلف قسم کے کیمیکل خارج ہوتے ہیں جو ہوا اور پانی کے ذریعے ہماری خوراک میں شامل ہو کر کینسر اور دیگر بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل کے لئے پلاسٹک بیگز کا استعمال کم کرنا ہوگاکیونکہ ان بیگز کا بے دریخ استعمال خواتین
 میں بڑھتے ہوئے بریسٹ کینسر کا سبب بن رہا ہے۔
پلاسٹک بیگز کا بے جا استعمال بلدیہ حیدرآباد کے لئے بھی دردِسر:
یہ پلاسٹک بیگز جہاں ہماری صحت اور ماحول کو خراب کر رہے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ شہر میں کچرا صاف کرنے والی میونسپل کارپوریشن کے حکام کے لئے بھی دردِسر بنے ہوئے ہیں۔ بلدیہ کے حکام                       ارشد سعید سدیقی کے مطابق حیدرآباد میں آلودگی کا 80فیصد مسئلہ ان پلاسٹک بیک کی وجہ سے ہے یہ نہ صرف کچرے کے ڈھیر کی صورت میں آلودگی پھیلا تے ہیں بلکہ سیوریج کی لائنز میں بھی اٹک جاتے ہیں جس کی وجہ سے گٹر ابل جاتے ہیں اور روڈ تالاب کا منظر پیش کرتے ہیں۔ایک انداذہ کے مطابق ایک عام پلاسٹک بیگ کی عمر تقریباََ 200سال ہے اور اس طویل عرصے میں بھی وہ بطور خود اپنی حالت تبدیل نہیں کرتا بلکہ مختلف طریقوں سے ماحول کی حالت خراب کر دیتا ہے۔
فیکٹریز،پلاسٹک بیگ بنانے کا عمل،ہول سیل کی دکانیں:
مختلف ماحولیاتی مثائل کے باجود بھی پلاسٹک بیگز کا کاروبار اپنے عروج پر ہے جس کا انداذہ حیدرآباد میں موجود انڈسٹریز اور ہول سیل کی دکانوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ سروے کے مطابق حیدرآباد میں تقریباََ سات بڑی فیکٹریز موجود ہیں جن میں نیشنل پلاسٹک،امین پلاسٹک اور غوثیہ پلاسٹک خاصہ مشہور ہیں ان فیکٹریز میں مختلف تعداد میں پلاسٹک بیگز تیار کئے جاتے ہیں جس کی تعداد 600کلو روزانہ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔مگر فیکٹری مالکان کے مطابق حکومت کی حکمتِ عملی کو سبب ان کے کاروبار میں کمی آئی ہے اور اب وہ محض آرڈر کے مطابق ہی مال تیار کرتے ہیں۔ 
فیکٹری ملازمین کے مطابق پلاسٹک بیگ بنانے کے لئے سب سے پہلے پلاسٹک کا دانہ درکار ہے جو کہ وہ باہر سے درآمد کرتے ہیں جو کہ ریفائنڈ آئل اور قدرتی گیس سے مل کر بنتا ہے۔اس پلاسٹک کے دانے کو مختلف عمل سے گزارا جاتا ہے جس میں سب سے پہلے اسکو گرم کرنے کا عمل ہے اس دانے کو اتنا کرم کیا جاتا ہے کہ وہ پگھل کر ایک موم نما مادے کی شکل لے لیتا ہے۔اس پکھلے ہوئے پلاسٹک کو ایک دوسری مشین سے گزارا جاتا ہے جو اسکو ہوا کی مدد سے غباروں کی شکل دت دیتی ہے۔ ان غبارے نما پلاسٹک کو مختلف رولرز سے گزارا جاتا ہے جو اسے پتلی لمبی شیٹ کی شکل دے دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان لمبی شیٹس کو کٹنگ اور سیلنگ مشین میں لگایا جاتا ہے اور مختلف سائز میں سیل لگا کر کاٹ دیا جاتا ہے اور پیک کر کے دکانداروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
کاریگروں کے مطابق اس تمام عمل میں انکی صحت پر کوئی منفی نقصان نہیں ہوتا محض گرمی کی شدت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہم کام کے دوران وقفہ لے لیتے ہیں۔
پلاسٹک کی کاروباری دوڑ میں فیکٹریز کے ساتھ حیدرآباد میں چھوٹی بڑی ملا کر تقریباََ 25ہول سیل کی دکانیں موجود ہیں جو نہ صرف حیدرآباد بلکہ کراچی اور لاہور سے بھی مال منگواتے ہیں جس کی مقدار 20سے 25ٹن ماہوار ہے۔مگر یہاں بھی حکومتی حکمتِ عملی اِن کے کاروبار میں کمی کا باعث بن رہی ہے اور انکی خریدو فروخت میں دن با دن کمی آ رہی ہے۔کانداروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پلاسٹک بیگز کے استعمال پر مکمل طور پر پابندی لگا دے گی تو اِس عمل سے ملکی سطح پر معیشت کو نقصان پہنچے گا کیونکہ یہ کوئی عام کاکروبار نہیں بلکہ اس میں بڑے پیمانے پر درآمداد بر آمداد کا عمل شامل ہے جو ٹیکس کی صورت میں ملکی معیشت کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔
پاکستانی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے سروے کے مطابق پلاسٹک بیگ کی صنعتوں سے تقریباََ چھ لاکھ لوگ بل واسطہ اور ڈیڑھ لاکھ لوگ بلا واسطہ طور پر منسلک ہیں۔اگر اس کاروبار کی مکمل طور پر بندش ہو گئی تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائینگے اور ملکی معیشت پر بوجھ بن جائینگے اس لئے اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت نے گزشتہ سالوں میں پلاسٹک بیگز کی بندش کے حوالے سے پیش کی جانے والی پالیسیز(جن میں سب سے پہلے پنجاب حکومت (2002) پھر وفاق حکومت (2013)،بلوچستان حکومت (2016)،خیبر پختونخواہ حکومت (2017) اور سندھ حکومت (2018)نے پلاسٹک بیگز کی مکمل بندش کی پیشکش کی تھی) کے برعکس اس سال اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی ہے اور2019اکتوبر 1پلاسٹک بیگز کی مکمل بندش کے بجائے محض اس کے بنے کے طریقے اور اجزاء میں تبدیلی کا اقدام پیش کیا اور حکومت کے اِس فیصلے پر سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی نے عملی طور پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔

(SEPA)سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے حکام سے بات چیت:
سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے حکام کے مطابق حکومت سندھ نے پلاسٹک بیگز کو بند کرنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ اُس میں استعمال ہونے والے اجزاء اور طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ ابھی جو پلاسٹک بیگز پورے پاکستان میں استعما ل ہورہے ہیں وہ مختلف سائنسدان کے مطابق مٹی میں 1000سال تک اور پانی میں 4500 سال تک بھی یہ بیگز نہیں گلتے تو اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ نے یہ کہا ہے کہ تمام پلاسٹک بیگز کی فیکٹریاں اگر شاپر بنائیں تو اُس میں D2Wکیمیکل کا استعمال کیا جائے کیونکہ D2Wسے بننے والے پلاسٹک بیگز ایک مخصوص عرصہ (تقریباً ۶ ماہ)میں اور ایک مخصوص درجہ حرارت پر ختم یا گَل جاتے ہیں او ر اَب تمام فیکٹریوں میں Non-Degradable پلاسٹک بیگز کے بجائے Degradable پلاسٹک بیگز بنائے جائیں گے۔اُن کا مزید یہ کہنا تھا کہ 1اکتوبر کے بعد ہماری مختلف ٹیمیں حیدرآباد میں موجود تمام پلاسٹک بیگز کی فیکٹریوں سے شاپر کے نمونے جمع کریں گی اور پھر 40 دن تک اُن کا بی۔او۔ڈی(BOD) اور سی۔ او۔ ڈی (COD) کی سطح چیک کریں گے اگر اُن بیگز پر 40 دن میں کوئی اثر نہیں ہوا تو اُس کا مطلب وہ بیگز غیر تخریبی ہیں تو پھراُس کے اُن فیکٹریوں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی پلاسٹک ایسوسی ایشن نے اِس نوٹس کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس کردیا ہے جس کو ہم اِس فیصلہ کے نافذمیں رُکاوٹ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کو یہ یقین ہے کہ کورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہی آئے گا۔ 
دوسرے ممالک کے پلاسٹک بیگز کے خلاف اقدامات:
پلاسٹک بیگز سے ماحول کے نقصان کو بچانے کے لئے دنیا کی سمجھدار قوموں نے استعمال کے خلاف سخت اقدامات کئے ہیں جن سے ان ممالک میں پلاسٹک بیگز کے استعمال میں واضح کمی آئی ہے اس کے علاوہ متعدد ممالک میں ان پلاسٹک بیگز کی قیمتیں بڑھانے سے بھی اس کے استعمال میں کمی دیکھی گئی ہے۔مثال کے طور پر برطانیہ میں دکان سے سودا خریدنے کے بعد انہیں گھر لے جانے کے لئے پانچ پینی تقریبا 9روپے فی شاپنگ بیگ خریدنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے لوگ بہت زیادہ شاپنگ بیگز خریدنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
ہمار ے پڑوسی ملک بھارت میں بھی شاپنگ بیگز پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی اور سزائیں مقرر کی گئی ہیں جس پر کافی حد تک عمل درآمد بھی ہوا ہے۔
ٓ اس کے علاوہ بنگلادیش نے 2002کے خطرناک سیلاب کے بعدپورے ملک میں پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کردی تھی کیونکہ اس سیلاب کی وجہ سے نکاسی آب کا نظام ان پلاسٹک بیگز کا ندی نالوں میں پھسنے کی وجہ سے مکمل طور پر درہم برہم ہوگیا تھا جس کے بعد بنگلادیش ان پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا تھا۔
24جولائی 2019کے میگزین دی ایکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق اب تک دنیا کے 90ممالک پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کرچکے ہین جبکہ36سے زائد ممالک نے ان کے خلاف اقدامات کئے ہیں۔
عوام کی رائے:
حیدرآباد کی عوام سے جب پلاسٹک بیگز کے حوالے سے رائے لی گئی تو اُن کا یہی کہنا تھا کہ پلاسٹک بیگز نہ صرف ہمارے ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ انسانی صحت کے لیے بھی مضر ہے۔ اُن کا یہی کہنا تھاکہ پلاسٹک بیگزکا استعمال ہماری روزمرہ کی زندگی میں اتنا عام ہوچکا ہے کہ اَب اِس کو مکمل طور پر بند نہیں کیا جاسکتا بلکہ حکومت کو چاہیئے کہ ماحولیاتی دوست پلاسٹک بیگز یا پھر ایسی نئی چیزیں متعارف کرائے جس سے ہماری روزمرہ زندگی میں خلل نہ ہو۔ جس طرح جامعہ کراچی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالاجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر انجم نواب نے آم کی گھٹلی سے بائیو ڈیگریڈیبل پلاسٹک بیگ متعارف کرایا ہے۔ بائیو ڈیگریڈیبل سے مراد جب استعمال کے بعد اُسے پھینک دیا جائے گا تو فضا میں موجود جراثیم اُسے کھا لیں گے اور نیم گرم پانی میں اُسے تلف بھی کیا جا سکتا ہے۔اور اِس پلاسٹک کی قیمت عام پلاسٹک کے برابر ہے۔ اِس کے علاوہ بین الاقوامی برانڈ (Saphire) نے بھی ایک ایسا شاپنگ بیگ متعارف کرایا ہے جس کو استعمال کرنے کے بعد پھاڑ کراگر مٹی میں دبا دیا جائے تو اُس جگہ ایک درخت اُگ جائے گا۔جس سے نہ صرف ماحول خوشگوار ہوگا بلکہ شجر کاری بھی بڑھ جائے گی یا پھر حکومت کو چاہیئے کہ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح لوگوں کو پلاسٹک بیگ استعمال کرنے کی بجائے کاغذ کے پوڑے یا کپڑے کے بنے ہوئے تھیلوں کے اِستعمال کی طرف توجہ دلائے۔
اختتام:
حکومت اچھا کر رہی ہے یا برُا لیکن بطورِ شہری ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ کم از کم مندرجہ ذیل نقاط پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
1۔  اگر ہم گاہک ہیں تو کچھ بھی خریدتے ہوئے دکاندار سے پلاسٹک بیگ لینے سے انکار کریں اور خریدی گئی چیز کے لیے کپڑے کی تھیلی یا اُس کا متبادل استعمال کریں۔
2۔  اگر ہم دکاندار ہیں تو اپنے خریدار کو پلاسٹک بیگ کے بغیر یا کسی متبادل چیز میں سامان رکھنے کی درخواست کریں۔
3۔  اگر ہم اسٹوڈنٹ ہیں تو اپنے ارد گرد جہاں پلاسٹک کا استعمال دیکھیں،وہاں نہایت ادب سے اُس کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی دیں۔
4۔  اگر آ پ پلاسٹک بیگ یا پلاسٹک مصنوعات بنانے کے کاروبار سے منسلک ہیں تو خام مال پر اس کے دوران D2W کیمیکل ضرور استعمال کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

Tando Wali Muhammad Hsitory and culture

نياز اسٽيڊيم رڪارڊ - سرمد علي کوھارو

Course outline topics