Revised - دستکار کمتر کیوں Sadia Younus

Group no 12 ...
Topic (Hyderabad main Diyaldas Club k nazdeek ki jany waly Dastkari)...
Group members.
1- Faisal Rehman 2k17/MC/29
2-Arham khan 2k17/MC/18

3- Sadia Younas 2k17/MC/137

 گروپ نمبر:   12   Revised....
نام سعدیہ یونس
رول نمبر 2K17-MC-137
  حیدرآباد دیالداس کلب کے نزدیک کی جانے والی دستکاری
        مذہبی لحاظ سے ان کو کمتر کیوں سمجھا جاتا ہے؟
        قدرت نے انسان کوذاتیات کے فرق کی فوقیت سے آزاد پیدا کیا ہے ذات انسان کی پہچان بتاتی ہے۔لیکن انسان کو اسکی ذات سے بڑا جاننا انسانیت  میں تفرقہ پھیلانے کے مترادف ہے۔ذات پات یا نظام ذاتیات ہندوں میں قدیم زمانے میں ایک نظام پایا جاتا تھا جس کی تہد زمانہ قدیم ہندوں معاشرے کو چار ذاتوں میں تقسیم کر دیا گیاپہلا مذہبی گروہ برہمن جو کہ علم او مذہب کے محافظ تھے اور دوم چھتری اور کھتری جو کہ دنیاوی امور کے محافظ تھے اور سوم ویش جو کہ زراعت اور تجارت سے دولت پیدا کرتے تھے چہارم ہندوں ذات شوودر ہے جو کہ خدمت کرنے کے لئے مخصوص تھے ان سب پیشوں کے لحاظ سے آگے کئی قسمیں ہوگئیں۔  
مذہبی کمتری کے لحاظ سے جب ہم نے راجیش نامی دستکار سے بات کی تو اس کا کہنا تھا کہ بدھ مذہب نے اس ذات پات کی تفریق کو مٹانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ مٹ نہ سکیں۔  اسی ذات کے فرق سے ہمارے آباواجداد رجھستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے، ذاتیات میں کمتر سمجھنے کی سوچ آج بھی قائم ہے،ذات کی فوقیت نے انسان کی اپنی پہچان کو ختم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انسان کتنا ہی ثقافتی پیشہ اختیار کرلے پہچانا ذات سے جاتا ہے۔        
             اس کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی قوم کو مذہبی لحاظ سے کمتر سمجھنا اُس قوم کی تنزلی کا باعث ہے۔ ذاتوں میں سب سے ذیادہ نچلے درجے کی یہ چند ذاتیں ہیں۔جو کہ ہندوں براددری میں کم تر سمجھی جاتی ہیں۔اچھوت عشق اور کچی ذات ان میں نچلے درجے کی ذاتیں مانی جاتی ہیں۔اور ہمیں انسانی حقوق سے بھی محروم رکھاجاتا ہے اور ہمیں  ہر لحاظ سے محرومیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نارو جوگی جو کی ۵۶ سال سے دستکاری کا پیشہ اپنائے ہوئے ہیں ان کے مطابق ہمارے بچے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو وہ نام سے کم نیچلی ذات سے زیادہ مخاطب کیے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچوں کو بہتراسکول میں تعلیم نہیں دی جاتی۔ نارو جوگی کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس رہنے کے لئے گھروں کی آسائش ہے نہ ہی ضرورت کی اشیاء موجود ہے،اور ہم لوگو ں نے فوٹپاتھ کو ہی اپنا گھر بنا رکھا ہے اٹھنا بیٹھنااور سونا یہ لوگ اپنی زندگی فوٹپاتھ پر ہی گزر بسر کر رہے ہیں۔بہت سے لوگ جن کے آباووجدادجو کہ ۰۸  سال سے اس دستکاری کے ہنر کو لے کر آج بھی اپنی زندگی اسی فوٹپاتھ پر گزار رہے ہیں۔
         دستکاروں کے بچوں کی تعلیم سے محرومی:
            جدید دور میں تعلیم انسان کی بنیادی ضروت ہے  لیکن وسائل کی کمی اور معاشرے کے دھتکاریاں تعلیم کی روشنائی سے بھی محروم کر دتی ہیں۔سنتوش کمار کے مطابق دستکاری کا یہ پیشہ دیالداس کی باہر سڑک کے دونوں اطراف میں ۰۰۱ سال قبل سے جاری ہے اور ان دستکاروں میں تعلیمی کمی کی سب سے بڑی  وجہ اپنے آباووجدادکی باتوں پر عمل کرنا ہے جن کا کہنا تھا کہ تعلیم ہنر پر فوقیت نہیں کرسکتی اسی لیے ہی وہ اپنے بچوں کو دنیا وی معلومات کے بجائے ہنر کی تعلیم دیا کرتے تھے۔اس کا کہنا  تھا کہ ہمارے بڑوں کا مانناتھا کہ  دنیا میں رہنے کے لیے دنیا کے ساتھ چلنا تو لازم ہے لیکن معاشرے کی دھتکاریوں سے آشنا ہوکر بچوں میں احساس ِ کمتری نہ بڑھ جائے،یہی وجہ ہے کہ ننے بچے تعلیم کی رہنمائی سے فیز یاب ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ نارو جوگی  کے مطابق  دستکاری  کا یہ ہنر ۰۰۱ سال قبل  ہمارے باپ دادا کی وراثت کا حصہ ہے۔   یہی وجہ ہے کہ ہم سندھ کی ثقافت کو ختم کر کے کوئی نیا پیشہ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ حیدرآباد دیالداس کلب کے اطراف میں دستکاری کا پیشہ سرانجام دیے 
رمیش کمار کے مطابق دستکاری کا پیشہ سندھ کی ثقافت کا نمونہ ہے یہ جب سے قائم ہے جب یہاں ایک روڈ ہوا کرتا تھااور روڈ کے اطراف میں گورنمنٹ دفاتر بھی موجودنہ تھے۔ دن بدلتے گئے دور میں جدت آگئی لیکن ہم سندھ کی ثقافت کو لیے روڈ کے کنارے ہی بیٹھے رہے،یہ پیشہ ہمارا نسل در نسل چلتا ہوا آرہا ہے۔
              جہاں دستکاری ایک ہنر ہے وہی ساری زندگی اپنی ثقافت کو مدھم ہونے سے بچانا،سیویلائزڈ  قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ بدین مٹھی ماتلی اور تھر کے علاقوں  میں عموما  لوگوں کی کمائی کا سبب بس یہی دستکاری ہے اوران لوگوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کی بجائے دستکاری کے اسی ہنر سے روشناس کرا  رکھا ہے۔
جب ہم نے ایک پندرہ سالہ بچے اشوک کو دیکھا جو کہ بیٹھا پردہ بنانے میں مگن تھا۔ اس سے پوچھا کہ وہ سکول کیوں نہیں جاتا تو اس بچے کا کہنا تھا کہ ہمارے بڑے ہمیں یہی کام کرنے کا کہتے ہیں کیونکہ اگر سکول جائیں گے تو کھائیں گے کہا سے اس لیے ہمیں اپنے بڑوں کے ساتھ کام کرنا پڑھتا ہے۔بچوں سے کا م کروانے راجیش نامی دستکار کا کہنا تھا کہ یہ بچے اسی لیے کام کرتے ہیں کہ اپنا اور اپنے گھر والو ں کا پیٹ بھرا جا سکے۔جو بچے تعلیم حاصل کرنے کی عمر کے تھے اب وہ اپنے والدین کے ساتھ یہی کام کرتے ہیں۔حکومت سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے راجیش کا کہنا تھا کہ حکومت نے بچوں کے لیے مفت تعلیم کا وعدہ بھی کیا تھا،البتہ اسے پورا نہیں کیا گیا۔جس وجہ سے ان کے بچے آج بھی تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں۔
    حکومتی عدم سرپرستی:
           ریاست  ہر قوم کی سر پرستی اور اچھی زندگی کا باعث ہوتی ہے دنیا میں وہی قومیں پنپتی ہیں جو کسی سرپرستِ اعلیٰ کی سربراہی سے  فزیاب  ہوں لیکن جہاں معاشرے کے عام لوگ ذتیات  اور رنگ روپ کی بنیاد پر حقیر جانتے ہیں واہی حکومتی سطح پر کوئی سر پرستی خاطر میں نہیں لائی جاتی،دستکاری کے پیشے سے وابستہ لو گ  شہری اور دیہی آبادی کے گھر کی تیزئین و آرئیش کا سامان تیار تو کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی زندگی میں بامشکل دن میں دو و قت کی روٹی میسر آتی ہے۔ ان کو حکومتی طور پر کہیں بھی کوئی سہولت موجود نہیں ہے یہ لوگ اپنے اس دستکاری کے پیسوں سے اپنا زندگی کا گزاراکرتے ہیں۔
حکومتی عدم سرپرستی پر ناروجوگی کا کہنا تھا کہ سندھ کی اس قدیم ثقافت زندہ رکھنے کے لیے حکومتی سطح پرآج تک کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا،نہ ہی آج تک کوئی حکومتی نمائندہ ہمارے پاس ہمارے مالی مسائل سننے آیا اورنہ ہی کسی نے اس ہنر کی پستی پرہمارے سر پر دست شفقت رکھا۔سندھ کی اس قدیم ثقافت کو زندہ رکھے ان لوگوں اور بچوں کے سروپرآج بھی چھت نہیں اور ان کے ذاتی گھر نہیں۔اس کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کئی بار ان سے جگہ دینے کا وعدہ تو کیا گیا پرافسوس حکومت کے دوسرے وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔ یہ لوگاآج بھی  فاٹپاتھ پر ہی اپنا سامان بیچتے ہیں اور وہیں پر کھانے پینے کی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔
دستکاری کے اس ہنر سے وابستہ ایک خاتون آرتی سشمہ کے مطابق ہم لوگ اس کام کو محنت سے کرتے ہیں اور اس سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں مگر دوسرے لوگ اس فوٹپاتھ پر بیٹھ کردستکاری کے کام کرنے کو سہی نہیں سمجھتے اور اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں اور غلط سمجھتے ہیں۔اس نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا کہ حکومت انہیں کوئی متبادل جگہ فراہم کرے تا کہ یہ لوگ فوٹپاتھ کی بجائے وہاں اپنا کام کر سکیں۔ 
                  
Sadia Younus - Investigative Report - Group work Group No: 12
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



Referred back

 یہ باتیں آپ کو کس نے بتائیں؟ ان کے نام دیں۔ 
رپورٹ کا بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جو سامنے والا آپ کو بتاتا ہے۔  فیس بک گروپ پر رپورٹ کے نمونے رکھے ہیں۔
رپورٹنگ بیسڈ کا مطلب آپ کا مشاہدہ (کیا دیکھا؟ کس حال میں دیکھا؟)  
ان لوگوں سے بات چیت ناموں کے ساتھ کس نے آپ کے اس موضوع پر کیا بولا؟  اس موضوع کے ماہرین کی رائے۔ اور
سیکنڈری ڈیٹا یعنی کسی رپورٹ وغیرہ  سے مدد لے رہے ہیں تو اس کو بھی نام 
کے ساتھ لکھو
Newspaper & Magazine production
گروپ نمبر:   12

نام سعدیہ یونس
رول نمبر 2K17-MC-137
 ٹوپک                حیدرآباد دیالداس کلب کے نزدیک کی جانے والی دستکاری
         مذہبی لحاظ سے ان کو کمتر کیوں سمجھا جاتا ہے؟

                   ذات پات یا نظام ذاتیات ہندوں میں قدیم زمانے میں ایک نظام پایا جاتا تھا جس کی تہد زمانہ قدیم ہندوں معاشرے کو چار ذاتوں میں تقسیم کر دیا گیاپہلا مذہبی گروہ برہمن جو کہ علم او مذہب کے محافظ تھے اور دوم چھتری اور کھتری جو کہ دنیاوی امور کے محافظ تھے اور سوم ویش جو کہ زراعت اور تجارت سے دولت پیدا کرتے تھے چہارم ہندوں ذات شوودر ہے جو کہ خدمت کرنے کے لئے مخصوص تھے ان سب پیشوں کے لحاظ سے آگے کئی قسمیں ہوگئیں۔بدھ مذہب نے اس ذات پات کی تفریق کو مٹانے کی کوشش کی لیکن یہ مٹ نہ سکیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ اچھوت اور اچھوت قومیں وجود میں آئیں۔جن کی زندگی اب بھی باوجود علم کے نہایت تلخ گزر رہی ہے۔اور عام انسانی حقوق بھی ان سے محروم رکھا جاتا ہے۔اچھوت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں چھونا بھی براخیال سمجھا جاتا ہے۔یہ لوگ اپنے معاشرے میں کم تر خیال سمجھے جاتے ہیں۔نیز انکے معاشی حالات بھی انتہائی نہ گفتہ ہوتے ہیں۔                     
                                         ان کو مذہبی لحاظ سے بھی کم تر سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ انکی ذاتوں میں سب سے ذیادہ نچلے درجے کی یہ چند ۴ذاتیں ہیں۔جو کہ ہندوں براددری میں کم تر سمجھی جاتی ہیں۔اچھوت عشق اور کچی ذات ان میں نچلے درجے کی ذاتیں مانی جاتی ہیں۔اور انھیں انسانی حقوق سے بھی محروم رکھتے ہیں اور ان کو ہر لحاظ سے محرومیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان لوگوں کے بچوں کو نہ تو بہتریں اسکولوں کی تعلیم دی جاتی اور نہ کوئی ہنر دیا جاتا ہے۔ حیدآباد دیالداس کلب کے باہر بیٹھی یہ قوم نہ تو انکے پاس رہنے کے لئے گھروں کی آسائش ہے نہ ہی ضرورت کی اشیاء موجود ہے ان لوگو ں نے فوٹپاتھ کو ہی اپنا گھر بنا رکھا ہے اٹھنا بیٹھنااور سونا یہ لوگ اپنی زندگی فوٹپاتھ پر ہی گزر بسر کر رہے ہیں۔بہت سے لوگ جن کے آباووجدادجو کہ ۰۸  سال سے اس دستکاری کے ہنر کو لے کر آج بھی اپنی زندگی اسی فوٹپاتھ پر گزار رہے ہیں۔
        دستکاروں کے بچوں کی تعلیم سے محرومی:
                         یہ لوگ ذیادہ تراپنے آباووجدادکی باتوں پر عمل کرتے ہیں فوٹپاتھ پر دستکاری کا کام کرتے وقت ایک نارو جوگی سے ہم نے پوچھا کہ وہ اس کام کے علاوہ کوئی دوسرا کام کے ہنر کو کیوں نہیں اپناتے تو انھوں نے بتانا کہ ہمارے بڑے یہ کام  ۰۰۱  سال سے کرتے ہوئے آرہے ہیں جب یہ حیدرآباد دیالداس کلب کی تعمیر بھی نہیں تھا  اور نہ ہی کوئی گورنمینٹ کی کاکوئی دفتر یہاں موجود تھا اور یہ روڈ جب ایک ہوا کرتا تھا۔ اور ہمارے بڑوں نے کہا ہے کہ اپنے اس دستکاری کے ہنر کو نہیں چھوڑنا اسی لئے ہم لوگوں نے اس دستکاری کے ہنر کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے اور یہی پیشہ ہمارا نسل در نسل چلتا ہوا آرہا ہے۔
                                      ان لوگوں کا تعلق حیدرآباد  سے ہے اور ان لوگوں میں کئی لوگ بدین مٹھی ماتلی اور تھر کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان لوگوں کی کمائی کا سبب بس یہی دستکاری ہے اور باقی کچھ لوگ بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں۔بچے اور بچیاں سڑکوں اور گلی گلی جا کر بھیک مانگتے ہیں۔اور اپنی زندگی گزربسر کرتے ہیں۔ان میں سے کچھ خاندان ایسے ہیں جن کے بچے اور بچیاں لڑکیاں اور لڑکے گھروں اور بنگلوں میں جھاڑو اور پوچھا لگانے  اور لڑکے مالی کا کام کرکے اپنا گھر کا خرچ پورا کرتے ہیں۔ان لوگوں کے بچے اور بچیوں کے پاس تعلیم کی سہولت موجود نہیں ہوتی کیونکہ ان کی نچلی ذات کی وجہ سے ان لوگوں کو دھتکار دیا جاتا ہے اور لوگ ان کو اپنی گھریلو ں اشیاء میں ہاتھ نہیں  لگانے دیتے یہی وجہ ہے جس سے ان کے بچے  تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں۔
        حکومتی عدم سرپرستی
                    ذیادہ تر لوگ جو کہ اس دستکاری کے پیشے سے تعلق رکھتے ہیں ان کو حکومتی طور پر کئی بھی کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی یہ لوگ اپنے اس دستکاری کے پیسوں سے اپنا زندگی کا گزاراکرتے ہیں۔سندھ کی اس قدیم ثقافت زندہ رکھنے کے لیے حکومی سطح پر کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا،نہ ہی آج تک کوئی حکومتی نمائندہ ان کے پاس ان کے مالی مسائل سننے آیا اورنہ ہی کسی نے  اس ہنر کی  پستی پران کے سر پر دست شفقت رکھا۔سندھ کی اس قدیم ثقافت کو زندہ رکھے ان لوگوں اور بچوں کے سروپرآج بھی چھت نہیں اور ان کے ذاتی گھر نہیں۔حکومت کی جانب سے کئی بار ان سے جگہ دینے کا وعدہ تو کیا گیا پرافسوس حکومت کے دوسرے وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔  یہ لوگ فاٹپاتھ پر ہی سوتے ہیں اور وہیں پر کھانے پینے کی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر خواتین اس دستکاری کے کام کرتی ہیں سجاوٹ وغیرہ میں خواتین ہی ان سجاوٹی چیزوں کو اجرک  سے سجاتی ہیں اور موتی شیشے وغیرہ کا استعمال کرکے اس کی بناوٹ میں خوبصورتی لاتی ہیں۔ان میں سے کچھ خواتین سے ہم نے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ہم لوگ اس کام کو محنت سے کرتے ہیں اور اس سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں مگر دوسرے لوگ اس فوٹپاتھ پر بیٹھ دستکاری کے کام کرنے کو سہی نہیں سمجھتے اور اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں اور غلط سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس یہ ہنر ہے اور ہمیں اس دستکاری کے کام شوق ہے اسی لئے ہم اس دستکاری کے کام کرتے ہیں اسی سے اپنی دال روٹی کا گزارا کرتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

Tando Wali Muhammad Hsitory and culture

Course outline topics

نياز اسٽيڊيم رڪارڊ - سرمد علي کوھارو