Waleed - دوسرے ممالک کے پلاسٹک بیگز کے خلاف اقدامات: 930 words
930 words
Waleed Bin Khalid
2k17/MC/105
BS-III
Investigation Report
Group 9
دوسرے ممالک کے پلاسٹک بیگز کے خلاف اقدامات:
پلاسٹک بیگز سے ماحول کے نقصان کو بچانے کے لئے دنیا کی سمجھدار قوموں نے استعمال کے خلاف سخت اقدامات کئے ہیں جن سے ان ممالک میں پلاسٹک بیگز کے استعمال میں واضح کمی آئی ہے اس کے علاوہ متعدد ممالک میں ان پلاسٹک بیگز کی قیمتیں بڑھانے سے بھی اس کے استعمال میں کمی دیکھی گئی ہے۔مثال کے طور پر برطانیہ میں دکان سے سودا خریدنے کے بعد انہیں گھر لے جانے کے لئے پانچ پینی تقریبا 9روپے فی شاپنگ بیگ خریدنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے لوگ بہت زیادہ شاپنگ بیگز خریدنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
ہمار ے پڑوسی ملک بھارت میں بھی شاپنگ بیگز پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی اور سزائیں مقرر کی گئی ہیں جس پر کافی حد تک عمل درآمد بھی ہوا ہے۔
ٓ اس کے علاوہ بنگلادیش نے 2002کے خطرناک سیلاب کے بعدپورے ملک میں پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کردی تھی کیونکہ اس سیلاب کی وجہ سے نکاسی آب کا نظام ان پلاسٹک بیگز کا ندی نالوں میں پھسنے کی وجہ سے مکمل طور پر درہم برہم ہوگیا تھا جس کے بعد بنگلادیش ان پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا تھا۔
24جولائی 2019کے میگزین دی ایکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق اب تک دنیا کے 90ممالک پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کرچکے ہین جبکہ36سے زائد ممالک نے ان کے خلاف اقدامات کئے ہیں۔
ماحول پر اثرات:
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی کراچی کی طرح ماحولیاتی آلودگی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ہر طرف کچرے کے ڈھیر، گٹر کے پانی سے بنے تالاب اور مختلف قسم کی ماحولیاتی خرابیاں جنم لے رہی ہیں جس کا الزام خاص طور وسے پلاسٹک بیگ کو دیا جا رہا ہے۔جس کی وضاحت بلدیہ کے حکام ارشد سعید سدیقی نے کچھ اس طرح کی کہ حیدرآباد میں آلودگی کا 80فیصد مثئلہ ان پلاسٹک بیک کی وجہ سے ہے یہ نہ صرف کچرے کے ڈھیر کی صورت میں آلودگی پھیلا تے ہیں بلکہ سیوریج کی لائنز میں بھی اٹک جاتے ہیں جس کی وجہ سے گٹر ابل جاتے ہیں اور روڈ تالاب کا منظر پیش کرتے ہیں۔ایک انداذہ کے مطابق ایک عام پلاسٹک بیگ کی عمر تقریباََ 200سال ہے اور اس طویل عرصے میں بھی وہ بطور خود اپنی حالت تبدیل نہیں کرتا بلکہ مختلف طریقوں سے ماحول کی حالت خراب کر دیتا ہے۔
فیکٹریز،پلاسٹک بیگ بنانے کا عمل،ہول سیل کی دکانیں:
مختلف ماحولیاتی مثائل کے باجود بھی پلاسٹک بیگز کا کاروبار اپنے عروج پر ہے جس کا انداذہ حیدرآباد میں موجود انڈسٹریز اور ہول سیل کی دکانوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ سروے کے مطابق حیدرآباد میں تقریباََ سات بڑی فیکٹریز موجود ہیں جن میں نیشنل پلاسٹک،امین پلاسٹک اور غوثیہ پلاسٹک خاصہ مشہور ہیں ان فیکٹریز میں مختلف تعداد میں پلاسٹک بیگز تیار کئے جاتے ہیں جس کی تعداد 600کلو روزانہ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔مگر فیکٹری مالکان کے مطابق حکومت کی حکمتِ عملی کو سبب ان کے کاروبار میں کمی آئی ہے اور اب وہ محض آرڈر کے مطابق ہی مال تیار کرتے ہیں۔
فیکٹری ملازمین کے مطابق پلاسٹک بیگ بنانے کے لئے سب سے پہلے پلاسٹک کا دانہ درکار ہے جو کہ وہ باہر سے درآمد کرتے ہیں جو کہ ریفائنڈ آئل اور قدرتی گیس سے مل کر بنتا ہے۔اس پلاسٹک کے دانے کو مختلف عمل سے گزارا جاتا ہے جس میں سب سے پہلے اسکو گرم کرنے کا عمل ہے اس دانے کو اتنا کرم کیا جاتا ہے کہ وہ پگھل کر ایک موم نما مادے کی شکل لے لیتا ہے۔اس پکھلے ہوئے پلاسٹک کو ایک دوسری مشین سے گزارا جاتا ہے جو اسکو ہوا کی مدد سے غباروں کی شکل دت دیتی ہے۔ ان غبارے نما پلاسٹک کو مختلف رولرز سے گزارا جاتا ہے جو اسے پتلی لمبی شیٹ کی شکل دے دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان لمبی شیٹس کو کٹنگ اور سیلنگ مشین میں لگایا جاتا ہے اور مختلف سائز میں سیل لگا کر کاٹ دیا جاتا ہے اور پیک کر کے دکانداروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
کاریگروں کے مطابق اس تمام عمل میں انکی صحت پر کوئی منفی نقصان نہیں ہوتا محض گرمی کی شدت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہم کام کے دوران وقفہ لے لیتے ہیں۔
پلاسٹک کی کاروباری دوڑ میں فیکٹریز کے ساتھ حیدرآباد میں چھوٹی بڑی ملا کر تقریباََ 25ہول سیل کی دکانیں موجود ہیں جو نہ صرف حیدرآباد بلکہ کراچی اور لاہور سے بھی مال منگواتے ہیں جس کی مقدار 20سے 25ٹن ماہوار ہے۔مگر یہاں بھی حکومتی حکمتِ عملی اِن کے کاروبار میں کمی کا باعث بن رہی ہے اور انکی خریدو فروخت میں دن با دن کمی آ رہی ہے۔کانداروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پلاسٹک بیگز کے استعمال پر مکمل طور پر پابندی لگا دے گی تو اِس عمل سے ملکی سطح پر معیشت کو نقصان پہنچے گا کیونکہ یہ کوئی عام کاکروبار نہیں بلکہ اس میں بڑے پیمانے پر درآمداد بر آمداد کا عمل شامل ہے جو ٹیکس کی صورت میں ملکی معیشت کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔
پاکستانی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے سروے کے مطابق پلاسٹک بیگ کی صنعتوں سے تقریباََ چھ لاکھ لوگ بل واسطہ اور ڈیڑھ لاکھ لوگ بلا واسطہ طور پر منسلک ہیں۔اگر اس کاروبار کی مکمل طور پر بندش ہو گئی تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائینگے اور ملکی معیشت پر بوجھ بن جائینگے اس لئے اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت نے گزشتہ سالوں کے برعکس اس سال اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی ہے اور پلاسٹک بیگز کی مکمل بندش کے بجائے محض اس کے بننے کے طریقے اور اجزاء میں تبدیلی کا اقدام پیش کیا ہے۔
Comments
Post a Comment