Waleed Bin Khalid -ٹیکنالوجی کے اپاہج

Subject: Creative writing
Practical work carried out under supervision of Siddique Soomro Sb


ٹیکنالوجی کے اپاہج
ولید بن خالد  
رول نمبر:  105

ٹیکنالوجی علم کا ایک ایسا نام ہے جو زندگی میں آسانی پیدا کرنے اور نت نئی ایجاد کرنے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔آج کے دور میں ہم جسے ٹیکنالوجی کہتے ہیں یہ اچانک وجود میں 
نہیں آگئی بلکہ صدیوں کا سفر طے کر کہ ہماری زندگیوں میں آئی اور اس کی چھاپ ہمیں پتھروں کے زمانے سے بھی پہلے سے ملتی ہے جب انسان لکڑیوں اور پتھروں سے اپنے روز 
مرہ کے کاموں میں آسانیاں پیدا کرتا تھا۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ انسان ترقی کرتا گیا اور آگ کی ایجاد کے ساتھ اس نے ایک نئے دور میں قدم رکھا۔اس کے ساتھ کئی چھوٹی بڑی 
ایجادات ہوتیں گئیں جو انسان کو پہیے کی ایجاد تک لے آئی جس نے نہ صرف انسان کا طرز زندگی بدلہ بلکہ اسکی سوچ کو بھی ایک نئی پرواز دے دی اور اس کے بعد انسان نے ترقی کی 
وہ منازل طے کیں جو آج کے دور کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

موجودہ دور میں ٹیکنالوجی انسانی زندگی میں اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جیسے کہ سانس لینے کے لئے آکسیجن اور پینے کے لئے۔پانی آج کے دور کا ہر فرد چھوٹا ہو یا بڑا کسی نہ کسی طور 
ٹیکنالوجی کے سائے میں زندگی گزار رہا ہے اور ٹیکنالوجی کی بدولت ملنے والی آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔مگر جہاں ٹیکنالوجی زندگی آسان بنا رہی ہے وہیں اپنے ساتھ 
مشکلیں بھی لا رہی ہے۔

ٹیکنالوجی کے فائدوں اور آسانیوں نے ہماری آنکھوں پہ پردہ ڈال دیا ہے جو ہمیں اس کے منفی اثرات سمجھنے سے روکتا ہے۔ٹیکنالوجی نے ہمیں نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ دماغی طور 
پر بھی اپاہج بنا دیا ہے۔ آج ہم ایک طرف ہوا میں اڑنے کی تو بات کرتے ہیں مگر پیدل چلنے کی بات سے بھی گھبراتے ہیں۔سارا دن کمپیوٹر یا موبائل میں گیمز تو کھیل سکتے ہیں مگر گھر سے باہر نکل کے کھیلنے سے بھاگتے ہیں۔ ہم انسانوں کے ساتھ اتنا وقت نہیں گزارتے جتنا اپنے اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ کے ساتھ گزارتے ہیں۔ باہمی یا روبرو گفتگو کی جگہ ویڈیو کالنگ نے لے لی ہے۔ہزاروں میل دور کسی دوست سے تو بات کرتے ہیں مگر ساتھ والے کمرے میں موجود گھر والوں سے بات کرنے کی فرست میسر نہیں ہوتی۔ وسے تو بہت کم ہی گھر ایسے باقی رہ گئے ہیں جہاں سب ساتھ بیٹھ کے کھانا کھاتے ہیں مگر جہاں کھاتے بھی ہیں تو سب کی توجہ حضرت ٹیلی ویژن کی طرف ہی ہوتی ہے۔

 ٹیکنالوجی نے ہماری زبان پر بھی بہت گہرا اثر چھوڑا ہے جس کی چھاپ ہم آج کی نوجوان نسل کے اندازِ گفتگو میں ملتی ہے۔ٹیکنالوجی کی وجہ سے اردو زبان کی شائستگی ختم ہو چکی ہے ماں ممی،باپ ڈیڈ،بھائی برو اور بہن سس بن چکی ہے۔یہاں تک کہ آج کا نوجوان اردو بھی انگریزی میں ہی بولتا ہے۔ اور لفظوں کا مطلب جانے بغیر ان کو استعمال کرتا ہے جس میں غیر اخلاقی الفاظ بھی شامل ہیں جیسے او فک،او شِ،دی ہیل وغیرہ۔

ایک ریسرچ کے مطابق مسلسل پانچ گھنٹے کسی ڈیجیٹل اسکرین کو دیکھنے سے انسان چڑچڑا اور زہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے اس کے باوجود ہم گھنٹوں اپنے اسمارٹ فونز سے جڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ہم ٹیکنالوجی کے استعمال کے اِس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اس کے بغیر اپنے کام بھی ادھورے چھوڑ دیتے ہیں۔ٹیکنالوجی نے انسانی نفسیات کو اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ آج کچھ لوگوں کو اے سی کے بغیر نیند نہیں آتی، اوون (oven)کے بغیر کھانا گرم نہیں ہوتا،حتہٰ کے کار یا موٹرسائیکل کے بغیر دس قدم کا سفر بھی طے نہیں کر سکتے۔

معاشی،زبانی اور نفسیاتی اثرات کے ساتھ ساتھ ٹیککنالوجی ہماری صحت کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ موبائل لیپ ٹاپ کی اسکرینز سے نکلنے والی شعائیں ہیں تعب چشم (eye strain) کی طرف دھکیل رہی ہیں اور ان کا طویل استعمال ہمارے کندھوں،گردن اور ریڑھ کی ہڈی میں شدید تکلیف کا سبب بنتا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ ان آلات کے استعمال سے ہماری یاد داشت بھی کمزور ہوتی جاتی ہے اور ہماری نیند بھی متاٗثر ہوتی ہے۔ یہاں تک کے ہم جزباتی مثائل کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں غصہ،اضطراب،ذہنی دباؤ اور بے چینی شامل ہیں۔

ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے ارد گرد کے ماحول پر بھی ٹیکنالوجی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ اسے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہم ایک مسلسل چلنے والی ٹکنیکی 
جنگ کا حصہ ہیں اور کسی نہ کسی طور اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی سے ہونے والی تباہیوں میں ہیروشیما ناگاساکی حادثہ، چرنوبائل حادثہ(Chernobyl
Disaster)،بین کیو ڈیم حادثہ،چیکاگو حادثہ (Chicago Disaster) کے ساتھ ساتھ مختلف آگ لگنے کے حادثے کار ایکسیڈینٹ کے حادثے او ر ہوائی اور بحری 
جہاز کے حادثے شامل ہیں جن میں نہ صرف جانی نقصان ہوتا ہے بلکہ ہمارا ماحول بھی تباہ ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انسان برا نہیں ہوتا اسکے اعمال برے ہوتے ہیں۔اس ہی طرح ٹیکنالوجی نقصان دہ نہیں بلکہ اس کا بے جا استعمال نقصان دہ ہے۔ کوئی بھی چیز اگر ضرورت سے زیادہ استعمال ہو تو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس لئے ہمیں ٹیکنالوجی کو بھی ایک حد میں صحیح طریقے سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہیئے نہ کہ اس پر منحصر ہو جائیں اور والدین کو بھی چاہیئے کے اپنی اولاد کو کسی ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح اور غلط استعمال سے بھی آگاہ کریں اور ان پر نظر بھی رکھیں تا کہ وہ کسی غلط راہ پر نہ بھٹک سکیں اور ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کر کے اپنی کامیابی کے راستے روشن کر سکیں۔کیونکہ ٹیکنالوجی ایک ایسا اوزار ہے جو اگر مثبت استعمال ہو تو کامیابی کی بلندیوں تک لے جائے اور اگر منفی استعمال ہو تو پستیوں میں دھکیل دے۔

Comments

Popular posts from this blog

Tando Wali Muhammad Hsitory and culture

Course outline topics

نياز اسٽيڊيم رڪارڊ - سرمد علي کوھارو