kashan sikandar مٹکا چائے feature

فیچر
کاشان سکندر
2K17/MC/51
BS-PIII
                     حیدرآباد کی مشہور مٹکا چائے
چائے کو ہمارے معاشرے میں ایک اہم مشروب سمجھا جاتا ہے۔آپ جہاں بھی جائیں وہاں زیادہ ترآپ کو چائے پیش کی جاتی ہے یہاں تک کہ مہمانوں کی خاطر تواضع کی ابتداء بھی چائے سے ہوتی ہے۔آپ باہر دوست سے ملے تو چائے،گھر تھکے ہوئے جائیں تو چائے،میزبان بن گئے تو چائے،مہمان بن گئے تو چائے،ناشتے میں چائے،سر میں درد ہو تو چائے حتی کہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا زندگی کا مقصد بس چائے پینا ہی رہ گیا ہے۔
      ''مانتا ہوں جناب پیتا ہوں
       ٹھیک ہے بے حساب پیتا ہوں
       لوگ تو لوگوں کا خون پیتے ہیں
       میں تو پھر بھی صرف چائے پیتا ہوں ''
چائے وہ خاص مشروب ہے جس کے تعارف کروانے کا سہرا چینیوں کے سر جاتا ہے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اسے برصغیر میں گوروں نے روشناس کروایا۔
ہمارے معاشرے میں مختلف اقسام کی چائے پینے کا رواج  ہے۔کوئی دودھ پتی چائے کوئی ادرک تو کوئی کشمیری چائے کا دیوانہ ہے مگر جس منفرد چائے کا ذکر آج میں کررہا ہوں وہ ہے ''مٹکا چائے''جی ہاں مٹکا چائے جوکہ مشروب بھی خاص ہے اوراُسے بنانے اور پیش کرنے کا انداز بھی نرالہ ہے۔
مٹی سے بنے ہوئے مٹکے میں مختلف کھانے پینے کی اشیاء رکھنا ایک عام رواج ہے۔اس طریقے سے مذکورہ شے میں مٹکے کی سوندھی سوندھی خوشبو بس جاتی ہے۔مٹکا کھیر،مٹکا قلفی اور مٹکا گوشت وغیرہ کے بعد اب مٹکا چائے بھی بے حد مقبول ہورہی ہے۔
مٹکا چائے بنانے کا طریقہ ہوٹلوں اور گھروں میں عام چائے کے طریقے سے تھوڑا مختلف ہے۔
گرم گرم بھانپ اُڑاتی دھوئیں کے سنگ اُبل کر آتی منفرد مٹکا چائے بنانے کا طریقہ کچھ ایسا ہے کہ سب سے پہلے دار چینی،الائچی،چائے کی پتی،دودھ اور چینی ملاکر پکایا جاتا ہے پھر چھوٹے چھوٹے مٹکوں کو کوئلے کی بھٹی میں ڈال کر دہکایا جاتا ہے اس کے بعد اس میں تیار چائے ڈالی جاتی ہے جو فورا   ہی گرم مٹکے کی وجہ سے اُبلنے لگتی ہے۔
چائے تیار ہونے کے بعد ایک نئی مٹکی میں ڈال کر پیش کی جاتی ہے،جس میں کوئلے اور مٹی کی سوندھی خوشبو آتی ہے جو پینے والے کو تازگی کا احساس دلاتی ہے۔
مٹکا چائے کی ابتداء میں پہلے بھارتی شہر پونے سے ہو ئی تھی جہاں ہندوؤں کی اونچی اور نچلی ذات کی تفریق کیلئے ان مٹی کے برتنوں کا استعمال کیا جاتا تھا اور کھانے کے بعد ان مٹکیوں اور برتنوں کو توڑ دیا جاتا تھا۔
مٹکا چائے نے ہندوستان میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں بھی چائے کے دیوانوں کو اپنا دیوانہ بنالیا ہے۔
پاکستان میں سب سے پہلے یہ مٹکا چائے کراچی میں متعارف کروائی گئی جس کے بعد اس منفرد چائے نے حیدرآباد کے لوگوں کو بھی اپنا گرویدہ بنالیا۔
حیدرآباد میں آٹوبھان پر موجود چائے شسٹم کے نام سے ایک چائے خانے پر یہ مٹکا چائے شہر میں پہلی بار متعارف کروائی گئی۔
حیدرآباد کے شہری چائے کے دیوانے تو ہیں ہی انہیں شام ڈھلتے ہی ذائقے دار اور خوشبو دار منفرد چائے مل جائے تو کیا ہی بات ہے۔
پاکستان میں ڈھابے کی چائے ویسے ہی بہت پسند کی جاتی ہے جہاں اکثر طالب علموں،پیشہ ور حضرات اور مزدوروں کا رش لگا ہی رہتا ہے۔
ہمارے ہاں سردیوں میں کافی پینے کا بھی رواج ہے مگر چائے کی طلب کسی موسم کی محتاج نہیں،موسم چاہے خشک شاموں کا ہو یا پھر سردیوں کی طویل راتوں کا یا پھر ساون میں رم جھم کے برسنے کا ہو چائے کا موسم پاکستان میں گویا لوڈشیڈنگ کا موسم ہے جو سال کے بارہ مہینے چلتا ہی رہتا ہے۔
سردیوں کی ایک ایسی ہی شام کا ذکر ہے جب میں نے اور میرے دوست نے اس منفرد چائے کے بارے میں سنا اور اُسی وقت ہم نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ آج ہی اس خاص مٹکا چائے سے لطف اندوز ہوا جائے،تو ہم دونوں نے چائے شسٹم کا رُخ کیا۔
جب ہم دونوں وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پورا ہوٹل کھچا کچ بھرا ہوا ہے نوجوان ہو یا بوڑھا آدمی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا ہر شخص گویا اس منفرد چائے کے مزے لوٹنے وہاں موجود تھا۔
کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ہمیں بیٹھنے کی جگہ ملی اور سکھ کا سانس لیا۔وہاں بیٹھے بیٹھے مجھے عبدالستار ایدھی مرحوم کی وہ بات یاد آئی جو انہوں نے ایک بار کہی تھی کہ پاکستان ترقی اس وقت کریگا جب ملک سے چائے اور سگریٹ کو ختم کیا جائے گا۔
ان کی یہ بات بجا ہی تھی کیو نکہ جو ماحول چائے خانوں میں اکثر وبیشتر نظر آتا ہے کہ ہماری عوام چائے کی چسکیاں اور سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے ملک کے سنگین مسئلے خواہ وہ بھارت سے جنگ،کرکٹ ٹیم کی شکست اور مہنگائی میں اضافہ غرض ہر مسئلے پر تبصرے و تجزیے کرتے ہیں۔بیٹھے بیٹھے ملک کے مستقبل کا فیصلہ بھی کرلیتے ہیں مگر افسوس کہ خود چائے اور سگریٹ ہی بؤپیتے رہ جاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ منظر میں نے بھی وہا ں دیکھا۔خیر اس کے بعد ہم نے وہاں موجود ایک ویٹر کو آواز دی اور 2مٹکا چائے لانے کا آرڈر دیا۔
ہم دونوں دوست بھی دوسروں کی طرح کرکٹ ٹیم کی شکست پر تبصرہ کرنے لگ گئے تقریبا دس منٹ بعد ویٹر مٹکا چائے لیکر حاضر ہوگیا۔
میں تو بہت بے قرار تھا چائے کی پہلی چسکی لینے کے لئے اور ہوں بھی کیوں نا اتنا سنا تھا اس منفرد چائے کے بارے میں اب اسے پینے کے لیئے بے قراری تو بنتی ہی ہے۔
گرم گرم بھانپ اُڑاتی،کوئلے اور مٹی کی سوندھی خوشبو نے اس چائے کا مجھے پہلی چسکی کے ساتھ ہی گرویدہ بنادیا۔
مٹکا چائے پینے کے بعد اب باری آئی اس کی قیمت ادا کرنے کی، ہمیں اندازہ تو تھا کہ اس کی قیمت عام چائے سے تھوڑی زیادہ ہی ہوگی۔عام چائے 30روپے میں با آسانی مل جاتی ہے جبکہ مٹکا چائے کی قیمت100روپے معلوپ ہوئی جسے ادا کرنے کے بعد ہمیں بلکل بھی افسوس نہیں ہوا کہ ہم نے زیادہ قیمت ادا کی کیونکہ ذائقے اور مٹی کی خوشبو سے ہمارے پیسے وصول ہو گئے تھے۔
اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ کاونٹر پر موجود ہوٹل کے مالک سے اس چائے کے بارے میں معلومات لی جائے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں کی روایات کو بر قرار رکھنے کی کوشش کی ہے جس طرح وہ مٹی کے برتن میں کھانے پینے کو ترجیح دیا کرتے تھے جو
انسانی صحت کیلئے مفید ہے اور مکمل طور پر جراثیم سے پاک بھی ہے۔
آخر میں وہاں موجود چائے کے شوقین افراد سے بھی اس منفرد چائے کے بارے میں ان کی رائے لی۔میرے چند قدم کے فاصلے پر ہی مجھے 3لڑکے خوب گپ شپ کرتے اور مٹکا چائے کے مزے اُڑا تے نظر آئے بظاہر وہ دوست ہی لگ رہے تھے۔جب میں ان سے اس  چائے کی خاصیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم ٹنڈوجام سے صرف اس خاص چائے کو پینے کے لئے آئے ہیں اس چائے کی ہم نے جتنی تعریف سنی تھی،وہ واقعی یہاں آکر آج سچ ثابت ہوگئی۔
اس کے علاوہ ایک خاتون سے بھی بات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے کہا کہ ''میں چائے کی اتنی دیوانی تو نہیں لیکن میرے شوہر نے جب اس چائے کے بارے میں بتایا تو میں بھی یہاں آکر چائے پینے پر مجبور ہوگئی اس کی سوندھی خوشبو نے مجھے بھی اپنا دیوانہ بنا دیا ہے۔
جس کے بعد ہم نے وہاں سے جانے کا فیصلہ کیااور اپنے باقی دوستوں اور چائے کے شوقین افراد کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اس منفرد چائے سے لطف اندوز ہونے اور مزہ دوبالا کرنے کے لئے ایسے چائے خانوں کا رُخ ضرور کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

نياز اسٽيڊيم حيدرآباد Chhachhar group

Raheel Jarwar

ameet kolhi sindhi feature