ٖ Faisal - Investigative Report حیدرآباد کے فٹ پاتھ کے دستکار

Note: The do not belong to Thar, 
Revised Individual Report
 گروپ نمبر:  12
Group no 12 ...
Topic (Hyderabad main Diyaldas Club k nazdeek ki jany waly Dastkari)...
Group members.
1- Faisal Rehman 2k17/MC/29
2-Arham khan 2k17/MC/18

3- Sadia Younas 2k17/MC/137

تحقیقاتی رپورٹ:  
نام:            فیصل رحمٰن
رول نمبر:           2K17/MC/29  
حیدرآباد  کے فٹ پاتھ  کے دستکار
       انٹرو، حیدرآباد کی دستکاری،  جائزہ،  دستکاری کے اس پیشے وابستہ خاندان  اور اس کام پر ہونے والی محنت،  دستکار خاتون کی  پروفائل۔  فوٹوگرافی
       انٹرو:
               دستکاری کا ہنر کئی سو سال پرانا ہے۔ہر زمانے میں انسان اپنے ہاتھوں سے مختلف چیزیں بناتے رہے ہیں۔کبھی انسانوں نے پتھروں کو تراش ایک خوبصورت مجسمے کی شکل دی تو کبھی لکڑی پر اپنے ہاتھوں کے جوہر دکھائے۔ہر دور میں انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے ایسے کئی ہی  فن،نقش ونگار اور ایسی کئی ہی  ہزاروں منفرد اور مختلف چیزیں بناتے رہے ہیں جو کہ ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اسی طرح آج بھی دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کہ دستکاری کے ہنر سے وابستہ ہیں اور بہت سی سادہ چیزوں کو اپنے اس ہنر کی بدولت انتہائی دلکش اور دلفریب بنا دیتے ہیں کہ دیکھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے۔دستکاری کسی بھی علاقے کی ثقافت اور اس کے تہذیبی تمدن کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
         پاکستان ہنڈی کرافٹ ایسوسیشن کی رپورٹ کے مطابق  ہر شہر کی اپنی دستکاری کی الگ پہچان ہے، اپنا ثقافتی رنگ ہے، سرگودہ کی دستکاری کا      ¿ چبا مشہور ہے ملتان دستکاری میں اونٹ کی کھال سے بنے خوبصورت نقش ونگاری کے لیمپ اور مٹی کے بلو رنگ کے برتن سے مشہور ہے، پشاور کی بنی پشاوری  چپل مشہور ہے، بلوچستان کی دستکاری میں ریلی،کارپیٹ،بلیکٹ وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں،اسی طرح سندھ کی ثقافت کی بھی الگ پہچان ہے  جس میں اجرک،سندھی ٹوپی، مٹی سے بنے برتن،چا ٹا ئیاں، مخصوص نقش و نگاری کے پردے اورگھر کی سجاوٹ کے لیے دوسری  چیزیں شامل ہیں۔
            دستکار ایک آرٹیسٹ ہوتاہے جو کہ اپنے آرٹ سے ایک سادہ اور عام فہم چیز کو بھی اس خوبی سے اپنے ہاتھ سے ڈیزائن کرتا ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔دنیا بھر کی طرح پاکستان کے بھی ایسے بہت سے شہر ہیں جہاں مختلف قسم کی دستکاری کی جاتی ہے۔دستکاری کا یہ سلسلہ کئی برسوں سے چلتا آرہا ہے۔
حیدرآباد کی دستکاری:
 پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح حیدرآباد میں بھی چند ایسے خاندان موجود ہیں جو کہ دستکاری کے اس ہنر سے وابستہ ہیں،اور کئی دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔دستکاری کا یہ پیشہ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے کا ہے۔اسی لیے دستکاری کے اس ہنر کو پاکستانی ثقافت کی بجائے سندھ کی ثقافت کہا جاتا ہے۔یہاں پر کام کرنے والے ذرائے معاش کی غرض سے کئی سال قبل سندھ کے علاقے تھر سے حیدرآباد آ کر آباد ہوئے تھے۔یہ لوگ حیدرآباد میں دیالداس کلب کے نزدیک روڑ کی دونوں اطراف فوٹ پاتھ پر دستکاری کی چھوٹی سی دنیا آباد کئے، اپنے ہاتھو ں سے بنائی ہوئی مختلف چیزیں سجائے بیٹھیں ہیں۔ 
      جہاں سندھ کے دوسرے شہروں میں مٹی،پتھر،کپڑے پر دستکاری ہوتی ہے تو وہی حیدرآباد کے یہ منفرد دستکار بھانس اور پھونس سے دستکاری کے مختلف نمونے بناتے ہیں۔یہ لوگ بھاس اور پھونس سے کرسیاں،پردے،چکیں، میزیں،دیواری سجاوٹ اور بچون کے مختلف کھلونے وغیرہ بناتے ہیں۔دیواری سجاوٹ میں انہیں خاص مہارت حاصل ہے۔دیواری سجاوٹ کی چیزوں میں تصاویر،اجرک پرنٹ اور چھوٹے شیشے کے ٹکڑے بھی استعمال کیے جاتے ہیں جو کہ سندھی آرٹ کا خاصہ بھی ہے۔خصوصی آرڈر پر یہ لوگ پھولوں کے پیچیدہ ڈیزائن، نقشے، خطاطی اور دیگر چیزیں بھی بناتے ہیں۔
 دستکاری کے اس پیشے وابستہ خاندان  اور اس کام پر ہونے والی محنت:         
            یہ چند ہی مخصوص خاندان باقی ہیں جو کہ اپنے آباؤ اجداد اور سندھ کے اس قدیمی ورثے کو سنبھالے ہوئے ہیں۔حیدآباد میں اس دستکاری سے وابستہ ۰۴ سے ۰۵ گھرانے موجود ہیں،جوکہ اسی دیالداس کلب کے پیچھے کچی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔یہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ صبح سے لے کر رات تک محنت کرتے ہیں۔صبح سے لے کر رات دیر تک یہ لوگ وہی فوٹ پاتھ پر اسٹریٹ لائٹ پر کام کرتے ہیں۔اس پیشے وابستہ ایک عورت ثمینہ شیخ  کا کہنا تھا کی جتنی صفائی اور دل جوئی سے کام کیا جائے اتنا ہی گاہک متوجہ ہوتا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ سب سے مشکل کام سجاوٹی اشیاء بنانا ہے،کیونکہ ان سجاوٹی اشیاء میں جو شیشے کے ٹکڑے اور مختلف رنگھوں کے داگھے  کے استعمال میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے،اور بہت باریکی سے یہ کام کرنا پڑھتا ہے۔شیشے کے مختلف ڈیزائن کے کٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو بھانس کی کانی پر رکھ کر مختلف رنگ برنگے داگھوں سے لگایا جاتا ہے۔ایک بہتریں سجاوٹی چیز کو تیار کرنے میں دو سے تین لگتے ہیں باقی اس کے علاوہ میز، کرسیاں،پردے وغیرہ بنانے میں بھی کافی محنت درکار ہوتی ہے لیکن ان میں وقت کم لگتا ہے۔اور سجاوٹ کی زیادہ تر اشیاء ان کی خواتیں ہی تیار کرتی ہیں۔  
پروفائل۔
ثمینہ شیخ (دستکار خاتون):
  ہمارے معاشرے میں خواتیں کو صنف نازک سمجھا جاتا ہے اور ایک عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ خواتیں کمروز اور کم ظرف ہوتی ہیں۔لیکن خواتیں بہت مرتبہ یہ ثابت بھی کر چکیں  ہیں خواتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اہلییت رکھتی ہیں۔اسی طرح کی ایکدستکار محنتی خاتون ثمینہ شیخ ہے جو کہ دیالداس کلب کے سامنے روڑ کے فٹ پاتھ پر دستکاری کی اپنی ہی چھوٹی سی دنیا آباد کیے بیٹھی ہے۔دنیا کی سرگرمیوں سے بے خبر اپنے کام میں مگن بیٹھی یہ اپنی دستکاری کے مختلف نمونے بنا رہی ہوتی ہے۔ثمینہ شیخ جس کا پرانہ نام راکھی تھا،آج سے تقریبا ۶۱ برس پہلے اس نیاپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر کے اپنا نام ثمینہ شیخ رکھا۔ثمینہ شیخ جس کے خاوندنے مذہب کی تبدیلی کے بعد اس سے راہیں جدا کر لیں۔لیکن اس با ہمت خاتون نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے خود کو اس قابل بنانا چاہا کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ثمینہ شیخ نے آج سے ۶۱ پہلے اس دستکاری کے ہنر کو پیشے کے طور پر اپنا لیا۔اور دستکاری کا ہنر سیکھنا شروع کیا۔وہ اپنے گھر کی واحد کفیل تھی۔
                      ثمینہ شیخ کے ۲ بیٹے اور ۲ بیٹیاں ہیں۔اس کی بھی خواہش تھی کہ اس کے بچے پٹرھیں اور وہ ہر گز ایسی زندگی نہ گزاریں جیسے وہ فٹ پاتھ پر بیٹھی ہوئی ہے۔لیکن قسمت اور حالات نے اس بات کی اجازت نہ دی اور ایک بیٹا اور ایک بیٹی صرف تیسری جماعت تک ہی تعلیم حاصل کے سکے۔مالی حالات اتنے بہتر نہ تھے کہ بچوں کوآگے پڑھا سکتیں۔حالات اور وقت کو دیکھتے ہوئے بچوں نے بھی اپنی ماں کے ساتھ یہی دستکاری کا کام کرنا شروع کر دیا،اور اسے اپنا روز گار بنا لیا۔
ثمینہ شیخ ایک سادہ دل اور نرم گو خاتون ہیں۔اپنے ہاتھ سے بنائے ان کے خوبصورت نمونے اور مقدس نام دیکھنے والوں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ان نمونوں کو دیکھ کر گاہک دم بخود چلے آتے ہیں۔قدردان ین کی محنت کے مطابق معاوضہ بھی    ادا کرتے ہیں۔ان کے مطابق اس طرح کے قدردان اور گاہک کم ہی بچے ہیں کیونکہ یہ دور مشینی دور ہے اب لوگ ان نمونوں سے زیادہ کمپیوٹرائز وال پیپر اور ڈیزائیننگ پینٹنگز کو ترجیح دے رہے ہیں۔کیونکہ وہ زیادہ تر پر کشش اور رنگیں ہوتی ہیں۔اسی لیے شہری اس دستکاری کے نمونوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ثمینہ شیخ کا کہنا تھا کہ ویسے تو مختلف نمونے بنائے جاتے ہیں لیکن تنکوں اور ولویٹ کے کپڑے سے بنی قرآنی آیات،مقدس،ہستیوں کے نام اس ہنر کو تقوت بخشتے ہیں اور اکثر لوگ ان سے اپنے نام کے بھی  ڈیزائن فرمائش پر بنواتے ہیں۔
      معاشرے کی ددکار اور طنز بھری نگاہیں آج بھی ثمینہ شیخ کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکیں۔بلکہ اس کا کہنا تھا کہ ان سب باتوں سے میں ہمت نہیں ہارتی بلکہ میراُ حوصلہ اور بھی بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ثمینہ شیخ کے ہاتھ سے بنائے ہوئے دستکاری کے چند نمونے جامعہ سندھ کی بینظیر آرٹ گیلری میں سندھی ثقافت کے طور پر سجائے ہوئے ہیں۔ثمینہ شیخ کا کہنا تھا کہ میرے لیے یہ سب سے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں سندھی ثقافت یہ نمونے بنا رہی ہوں۔


Comments

Popular posts from this blog

نياز اسٽيڊيم حيدرآباد Chhachhar group

Raheel Jarwar

ameet kolhi sindhi feature