حیدرآباد کی توڑتی چوڑ ی کی انڈسٹری Nabiha

Group 7 
یہ ارٹیکل ہے رپورٹ نہیں۔  رپورٹ میں تین چیزیں ضروری ہوتی ہی:
ذاتی مشاہدہ اور احساسات، متعلقہ لوگوں یعنی تاجر، چوڑی کے کارخانے والے، مزدوری رکنے والے، متعلقہ حکومتی افرادکوٹیشن  و حوالے ناموں کے ساتھ،  ماہرین کی رائے، سیکنڈری ڈیٹا، ڈاکیومنٹس۔
اس پر بعض این جی اوز نے بھی کام کیا ہوا ہے۔ مزدور خواتین کی یونین بھی ہے۔
یہ سب چیزیں کسی کے منہ میں ڈالو، مطلب ان سے کہلوائو
ریکارڈ میں انٹری کے لئے آپ کو گروپ نمبر لکھنا چاہئے تھا
اب مجھے تلاش کر کے لکھنا پڑ رہا ہے۔ 
حیدرآباد اہم شناخت کھونے کے ددہانے : دم توڑتی  چوڑ ی کی انڈسٹری
نبیہا احمد
رول نمبر:۱۷
بی ایس پارٹ تھری
نگران ٹیچر: سر سہیل سانگی

 پاکستان کا ہر شہر اپنی سوغات یا خصوصیات کی وجہ سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔کانچ کی رنگ برنگی جھلملاتی چوڑیاں، بمبئی بیکری کا مشہور کافی کیک، پلا مچھلی،  اور ٹھنڈی ہواؤں کا ذکر آتے ہی فورا سے ایک ہی شہرکا نام ذہن میں آتا ہے ’حیدرآباد‘۔  حیدرآباد یوں تو اپنے تاریخی ورثوں سمیت بیشتر چیزوں کے لئے مشہور ہے۔لیکن اپنی چوڑیوں کے لئے قومی اور بین الاقوامی طور پر یکساں پہچانا جاتا ہے۔ بغیر چوڑیوں کے ذکر کے حیدرآبادکا تعارف کچھ ناممکن سا ہے۔پورے ملک سے جب بھی کوئی حیدرآباد سیاحت یا کسی کام کے سلسلے میں آتا ہے تو جاتے ہوئے اپنے عزیزواقارب کے لئے سوغات کے طور پر حیدرآبا د کی مشہور چوڑیاں بہت شوق سے لے کے جاتا ہے۔حیدرآباد کی یہ روایت سالوں سے قائم ہے۔

حیدرآباد کی اس صنعت سے لوگ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک نسل در نسل منسلک ہیں۔لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حیدرآباد کی یہ صنعت اپنا مقام کھوتی جارہی ہے۔موجودہ حالات دیکھتے ہوئے یہ کہنا قطعا     غلط نہ ہوگاکہ حیدرآباد کی پہچان چوڑی کی صنعت زوال کی طرف گامزن ہے جو کہ قابلِ تشویش ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے چند سالوں میں ۵۲ سے ۰۳ کارخانے بند ہوئے ہیں جو کہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟ آخر ایسا کیا ہوا کہ اتنی بڑی صنعت یوں زوال پذیر ہونے جا رہی ہے۔اس سے پہلے یہ جانناضروری ہے کہ یہ صنعت شروع کیسے ہوئی۔
یہ کس کی رپورٹ ہے؟ کب کی ہے؟
قیام پاکستا ن سے قبل برصغیر کا شہر فیروزآباد چوڑی کی صنعت کا اہم مرکز تھا۔جو کہ آج بھی قائم و دائم ہے۔قیامِ پاکستان کے وقت وہاں کے چند خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے۔انہوں نے یہاں آکر چوڑی کے کارخانے لگانے چاہے لیکن حیدرآباد کے علاوہ اور کہیں بھی یہ کارخانے چل نہ سکے جس کی وجہ حیدرآباد کی آب وہوا ہے۔چوڑی بنانے کے لئے ایک خاص درجہ حرارت اور آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیدرآباد کا موسم چونکہ اس کام کے لئے موزوں اور بہترین تھا تو حیدرآباد میں اس کے کئی کارخانے لگائے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہنر ایک صنعت کی شکل اختیار کر گیااور حیدرآباد جنوبی ایشیا میں چوڑی کی صنعت کا اہم مرکز بن گیا۔خاص طور پر بنگلہ دیش، افغانستان، اور سری لنکا میں حیدرآباد کی چوڑیوں کوپسند کیا جانے لگااور یوں درآمدات کا سلسلہ بھی شرو ع ہوگیا۔
چوڑیوں کا اہم مرکز حیدرآباد میں واقع نشاط مارکیٹ میں ہے۔حیدرآباد میں چوڑیوں کی تقریبا۰۰۶۱ کے قریب دکانیں تھیں۔۔جب کہ کارخانوں کی تعداد تقریبا ۰۶ تھی۔جو کہ گھٹ کہ۰۳ سے ۵۳ ہوگئی ہے۔  (یہ کون کہہ رہا؟ کیسے معلوم؟)
اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ جب یہ انڈسٹری اتنی مشہور ہے تو یہ اتنی تیزی سے زوال پذیر کیوں ہے؟یہ ہی سوال جب تاجر برادری سے پوچھا گیا (کوئی نام؟ ان کی تنظیم وغیرہ کا نام؟ اس کی کیا حیثیت ہے؟)
تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔جن میں بجلی اور گیس کے نرخ میں بڑھتا روز بروز اضافہ، ڈالرز اور سونے کی قیمت کا بڑھنا، خام مال کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔ اس کی بڑی وجہ حکومت کا اس صنعت کی سر پرستی نہ کرنااور اس کے زوال کو نظر انداز کر دینا ہے۔۔ان تمام وجوہات کی وجہ سے اس صنعت کو بہت بڑا دھچکاپہنچا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں ہول سیل میں فی ڈبے پر تقریبا ۰۰۱ روپے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جو کہ دکانو ں پر پہنچ کے دوگنا ہوجاتا ہے۔
؎گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، سونے کا مہنگا ہونا، خام مال کی قیمتوں کا بڑھنا اس صنعت پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ چوڑیاں بنائی کس طرح جاتی ہیں۔
کانچ کے ٹکڑوں سے کلائی کی چوڑیوں تک کا سفر
کانچ سے چوڑیوں کا سفر مختلف مراحل سے گزر کر مکمل ہوتا ہے۔سب سے پہلے کانچ چنا جاتا ہے، پھر اس کانچ کو بھٹی میں پگھلا کرببل کی صورت میں ڈھالا جاتا ہے، پھر اس پر لپہ لگایا جاتا ہے اورلچھے دارا سپرنگ کی شکل دی جاتی ہے۔اس اسپرنگ کوہیرے کی مدد سے کاٹا جاتا ہے اور سدائی (جس میں جوڑکو آگ کی تپش سے بٹھایا جاتا ہے) کے لئے ٹھیکیداروں کے ذریعے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے۔ چوڑی کی صنعت چونکہ گھریلو صنعت ہے۔ تو مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچے بھی اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ 
سدائی کا عمل چونکہ گیس کے چولہوں پر انجام دیا جاتا ہے اس لئے گیس کی قیمتوں کا بڑھنا اثر انداز ہوتا ہے،  چوڑی کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جن میں ایک مشہور قسم مینے والی چوڑیوں کی ہے، مینے کے کام میں چونکہ سونے کا استعمال ہوتا ہے اس لئے سونے کے نرخ کااچانک بڑھنا اس صنعت کے لئے دھچکے کا باعث ثابت ہوا ہے۔اس صنعت کے زوال کی ایک وجہ برآمدات میں ہونے والی کمی ہے جس کی وجہ کسٹم ڈیوٹی میں ہونے والا بیش بہا اضافہ ہے۔
اس صنعت کے زوال پذیرہونے کی ایک بڑی وجہ خون پسینہ بہا کر بھی ملنے والی نہایت ہی معمولی سی اجرت ہے۔کانچ چننے سے لے کر سدائی کے عمل تک یہ چوڑیاں مختلف مراحل سے گزرتی ہیں جن میں چوڑیان بنانے والوں کی لہو توڑ محنت شامل ہوتی ہے۔پھر بھی انہیں ان کی محنت کے مطابق اجرت نہیں دی جاتی۔ حکومتِ پاکستا ن کے قانون کے مطابق مزدور کی روزانہ کی اجرت ۰۵۳ روپے اور ماہانہ تنخواہ ۰۰۰۰۱ روپے ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ ایک گھریلو صنعت ہے اور صحیح طرح اس کے مزدوروں کی تعداد کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں۔اس وجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹھیکیدار ان مزدوروں کو ان کی جائز اجرت نہیں دیتے اور یہ لوگ چونکہ اور کوئی ہنر نہیں جانتے اس لئے ساری ساری زندگی ا س ہی کام کو کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔
تاریک پہلو:
اس صنعت کا تاریخ پہلو یہ ہے کہ اس صنعت میں اجرت چونکہ بہت کم ہے جس سے گھر کا چولہا جلانا مشکل ہے۔ اس لئے یہ کام پورے پورے خاندان مل کے محنت سے کرتے ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق اس صنعت سے ۰۵ ہزار سے زائد بچے بھی منسلک ہیں۔ جن کی عمر چھوٹے چھوٹے خواب بُننے کی ہے وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے چوڑیاں بنانے میں مصروف ہیں۔وسائل کی کمی کے باعث ان کا اسکول جانا تو بہت دو ر کی بات یہ اپنے شوق بھی پورے کرنے سے عاری ہیں۔پاکستا ن کے آرٹیکل ۳.۱۱ کے مطابق کوئی بھی بچہ جس کی عمر ۴۱ سال سے کم ہے اس سے کام نہیں کروایا جا سکتا۔لیکن اس صنعت میں ایسے بہت سے بچے ہیں جن کی عمر ۰۱ سال سے بھی کم ہے۔لیکن ان کا سدباب کرنے والا کوئی نہیں۔
قلیل اجرت اور ساری زندگی کی بیماریاں 
وی او اے پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گھروں میں چوڑیاں بنانے واالی خواتین بتاتی ہیں کہ وہ ایک دن میں چوڑی کے ۰۶ سے ۰۷ توڑے بناتی ہیں۔ایک توڑے میں ۰۵۳ چوڑیاں ہوتی ہیں۔ایک توڑے کی قیمت انہیں پہلے ساڑھے ۴ روپے ملتی تھی جو کہ اب ۵ روپے کر دی گئی ہے۔جب کہ مارکیٹ میں ایک درجبن چوڑی کا سیٹ ۰۵سے ڈھائی ہزار روپے تک کا دستیاب ہے۔ 
 ۲۰۰۲ میں کئے جانے والے یونیسیف کے سروے کے مطابق تنگ گلیوں اور کچے مکانات میں گھنٹوں آگ کے بہت قریب یا چراغ کے لو کی گرمائش میں بیٹھ کر گرمی اور حبس کے ماحول میں کام کرنے سے یا پھر مینا کاری کے ذریعے کیمیکل کا مسلسل استعمال اور کٹائی کے دوران شیشے کے ذرات انگلیوں میں پیوست ہوجانے کی وجہ سے علاج نہ ہونے پر یہاں ہر خاندان میں ایک فرد ٹی بی، دمہ، نابینا پن، یا پھرجوڑوں کے درد کی بیماری کا شکار ہے۔ 
اتنی کم اجرت اور اتنی سخت محنت اور اس پر اتنی متضاد بیماریاں لوگوں کو یہ صنعت چھوڑ کر کوئی اور کام کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اس صنعت پر بہت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
تاجروں کے مطابق جس طرح وسائل کی کمی اور حکومت کی سر پرستی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ صنعت زوال کا شکار ہے انہیں اس صنعت کا کوئی مستقبل نہیں دکھتا۔اگر یہ سب یوں ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ حیدرآباد اپنی شناخت کا اہم حصہ کھو دے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

نياز اسٽيڊيم حيدرآباد Chhachhar group

Raheel Jarwar

ameet kolhi sindhi feature