Musabbiha imtiyaz Investigation Report

Group No???
فیس بک گروپ پر رپورٹ کے نمونے موجود ہیں، وہ  غور سے پڑھیں۔  پھر رپورٹ بنائیں۔
یہ رپورٹ نہیں آرٹیکل کا فارمیٹ ہے۔ 
 اپنا نام اور موضوع کو بریکیٹ نہ دیں۔ 
اس میں سرکاری موقف موجود نہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کے لئے الگ ڈائریکٹوریٹ ہوتی ہے۔ 

ی اسکول کی تصویر جو کچھ بتاتی ہو۔
 دوسرے گروپ میمبر سے بھی شیئر کرو، پھر دیکھو باقی کیا ضروری رہ جاتا ہے۔مزید نوٹ نیچے مواد کے ساتھ دیا یے اس کو دیکھیں 
 دوبارہ درست کر کے بھیجیں۔

انویسٹیگٹیو رپورٹ(مصبیحہ امتیاز)
رول نمبر:2k17 MC68

ٹاپک (تعلیم بیچومگر سستی)

حیدرآباد کی آبادی، اور شرح خواندگی/
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں پچھلے پندرہ برس میں پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی تعدا د میں ستر(70%)فیصد اور سرکاری و فلاحی تعلیمی اداروں کی تعداد میں محض تیس فیصد (30%)اضافہ ہوا۔ حیدرآباد شہر کی کل آبادی تقریبا ً 1,38,6330ہے۔
(آبادی کے اعدادوشمار غلط ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق  شہر کی آبادی  سترہ لاکھ تینتیس ہزار ہے)
سن دو ہزار تک (2000)تک تعلیمی سیکٹر میں پرائیویٹ اسکولوں کا تناسب انیس (19%)فیصد تھا۔ آج چالیس فیصد (40%)ہے۔ اس طرح ہر تین میں سے ایک بچہ کسی سرکاری اسکول میں زیر تعلیم ہے دوسرا کسی پرائیویٹ اسکول میں اور تیسرا بچہ کہیں پڑھ ہی نہیں رہا۔ پرائیویٹ اسکولز میں 65%فیصد لڑکیاں جبکہ 75%لڑکے زیر تعلیم ہیں۔
یہ کون بتا رہا ہے؟ کس بنیاد پر؟ 
اسکولوں اور زیر تعلیم بچوں کے اعدادوشمار بھی غلط ہیں۔ آپ کو سورس کوٹ کرنا چاہئے 
اعدادوشمار آپ اس ویب سائیٹ لنک سے لے سکتے ہیں، لیکن اس کا حوالہ دینا ضروری ہے۔
http://aserpakistan.org/document/aser/2012/drc/sindh/Hyderabad.pdf
کچھ اور اعدادوشمار اس لنک پر بھی ہیں۔ لیکن اس میں سال اور سورس کوٹ کرنا:
http://sindhbos.gov.pk/wp-content/uploads/2013/12/School-Education-Statistics-Sindh-by-District-2010-11.Complete.pdf

تحقیقاتی رپورٹ خبر کی مانند ہے جس میں فائیو ڈبلیو اور ون ایچ لازمی ہے، کس اسکول کے بچوں کے والدین کہہ رہے ہیں، نام دیں۔ وہ کہاں رہتے ہیں۔ کیا کرتے ہیں؟ نامعلوم سورس رپورٹ میں نہیں چلتا۔
والدین کا رونا بھی اور داخلہ بھی پرائیویٹ اسکول میں: 
آج کے دور میں والدین بچوں کو" تعلیم یافتہ" بنابے کیلئے اس قدر جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہین کہابھی بچے کی عمر کھلونوں سے کھیلنے کی ہوتی ہے کہ اسے (A.B.C.D)کے رٹے لگوائے جارہے ہوتے ہیں۔ جبکہ نجی تعلیمی اداروں کی بھاری فیس اور دریگر اخراجات کا رونا بھی یہ والدین خوب روتے ہیں۔والدین اپنے بچے کو اسکول میں داخلہ دلوانے کے بعد اس بات سے لاعلم ہوجاتے ہیں کہ ان کا بچہ تعلیم کے نام پر کیا پڑھ رہا ہے۔ لیکن اس مقابلے کے دوڑ میں والدین ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے چکر میں نجی تعلیمی اداروں کے اخراجات نہ ہونے کے باوجود پورے کرتے ہٰن۔ اس ضمرے میں والدین کی نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ کروانے کی ایک بڑی وجہ سرکاری تعلیمی اداروں کی بد حالی ہے۔
جہاں اسا تذہ ہی غیر حاضر ہوتے ہیں وہاں تعلیم کا حال زوال پذیر ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ سو والدین اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخلہ کروانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق والدین کی آمدنی کا 45%حصہ بچوں کی تعلیمی اخراجات میں صرف ہوتے ہیں۔
 یہ سب کچھ کسی کے منہ میں ڈالو ایک سے زائد افراد ہوں۔  رپورٹ میں سورس کا ہونا لازم ہے
والدین اور تعلیمی اداروں کے درمیان فیس واؤچر کا رشتہ اور حکومتی اقدامات
ایک اوسط معیار کے پرائیویٹ اسکول میں داخلوں سے پہلے ہی ایپلی کیشن اور رجسٹریشن فیس کے نام پر 50ہزار روپے بہ وقت اسکول میں تعلیمی قرباں گاہ کے چرنوں میں دان کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ "سیکیورٹی ڈپازٹ"بھی دینا پڑتا ہے جوکہ قابلے واپسی بتایا جاتا ہے مگر کئی برس اسے کون یاد رکھے۔اس کے ساتھ ساتھ واؤچر میں عمو ماً دو ماہ کی ایڈوانس فیس درج ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر چارجز (بھلے کمپیوٹر ہو یا نہ ہو) پلاٹ چارجز (بھلے کرائے کی ہی کیوں نہ ہو) سیکیورٹی ارینجمنٹ چارجز(بغیر اسلحہ یافتہ، غیر تربیت یافتہ گارڈز کے ساتھ) سالانہ چارجز (سال پورا ہونے سے پہلے ہی) لائبریری چارجز وغیرہ وغیرہ۔ بات صرف فیس واؤچر کی نہیں بلکہ نت نئے طریقوں سے والدین کا خون چوسنا نجی تعلیمی اداروں کی پالیسی میں شامل ہے۔
واضح مثال دیں۔  سورس کوٹ کریں 
مثلاً: آج فینسی ڈریس کا دن کا لہذابچے کو بھالو بن کر آنا ہے بھالو کو لباس آٹھ سو یا ہزار کا فلاں فلاں دکان پر دستیاب ہے۔ تو اس کے بعد رنگوں کا ہفتہ شروع ہوجاتا ہے جو ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا۔ کبھی لال کبھی پیلا گوکے ہر رنگ کے دن کے ساتھ ساتھ والدین کی جیب میں موجود ہرے اور لال نوٹ کا استعمال لازم ہے۔حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستا ن کے حکم پر تمام نجی تعلیمی اداروں کو صرف 5%پانچ فیصد فیس بڑھانے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ نجی تعلیمی اداروں نے دیگر قوانین کی طرح اس حکم کی دھنجیاں اڑادیں۔

کورس سے لیکریونیفارم تک اسکول میں " مہنگے داموں " میں دستیاب ہیں 
نجی اسکول اب کورس کی کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنریز تک بہ اصرار خود فراہم کرتے ہین۔ نرسری تا پہلی جماعت کے بچے کے والدین کو ان اشیا سے بھرے بیگ کے صرف چھ سے دس ہزار روپے ہی تو دینے ہیں۔کاپیاں بھی اسکول سے خریدی ہوئی ہی چلیں گی کیونکہ اس میں سونے اور چاندی کے ورق موجودہیں جبکہ باہر سے خریدے جانے والی کاپیوں میں کاغذموجود نہیں ہے۔اس سے نہ صرف والدین کا وقت بچتا ہے بلکہ اسکول کو بطور سپلائر "معمولی"کمیشن بھی حاصل ہوتا ہے۔ یونیفارم بھی اسکول سے ملتے ہیں یا صرف مخصوص دوکان (جس سے کمیشن ملے) پر دستیاب ہوتا ہے۔ ہر دوسال بعد یونیفارم میں تبدیلی کبھی رنگ لائٹ گرے سے ڈارک گرے ہوجاتا ہے تو کبھی قمیض پر کڑھا ہوا مونو گرام لال سے نیلا ہوجاتا ہے۔ اور نیا یونیفارم لازمی خریدنا پڑتا ہے بصورت دیگر ڈسپلین کے خلاف ورزی کرنے کا سوال اٹھ جاتا ہے۔والدین ماہانہ فیس اور دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ اسکول کہ شناختی کارڈ اورچھ تصویروں کے پیسے بھی ادا کرتے ہیں۔
کوئی لوکیشن اسکول کا نام وغیرہ 
نجی اسکولوں کا انفرااسٹکچر
نجی اسکول کے انفرا اسٹکچر کی بار کی جائے تو 400گز کے پلاٹ پر چار منزلہ عمارت میں 10کمرے بنوا کر 1200(بارہ سو)سو نہال کو انگلش میڈیم اسکول کے نام پر بھیڑ بکریوں کی طرح بھر دیا جاتا ہے اسکولوں میں کھیل کے میدان سرے سے غائب ہیں۔ جس کا ازالہ اسکول انتظامیہ ہر سال "اسپورٹس ویک"منعقد کروا کر کرتی ہے۔ گھٹے ہوئے کلاس رومز میں تعلیم حاصل کرنے آنے والے طلبہ کی ذہنی نشو نما بھی گھٹ جای ہے اور کئی نجی تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی خستہ حالی ان کی تعلیمی معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

نصاب میں تصادم
نجی تعلیمی اداروں میں بھاری رقوم لے کر انگریزی، اردو، امریکن، آکسفورڈ اور پاکستانی نصاب کے محلوں کے ذریعے ایک ایسی نسل پر وان چڑھائی جارہی ہے جو نمائشی غیر معیاری اور غیر اسلامی تعلیمی ماحول میں پڑھ کر "نہ خدا ملا نہ وصال صنم'کی عملی تفسیر بنی ہوئی ہے۔ ہر طبقہ کے نجی ادارے میں الگ نصاب، الگ زبان اور الگ نظام تعلیم نے معاشرے کو کئی طبقات میں تقسیم کر دیا ہے۔
جامعہ سندھ اولڈ کمپس کے لیکچرار نشعبان علی کا کہنا ہے کہ نصاب میں تفریق ہماری نئی نسل کو انتشار، امیرو غریب کی تعقیر،لسانیت کا پر چار، قوم پرستی اور جب الوطنی کے جذنے کا فقدان اور بے پناہ مسائل کی طرف لے جا رہا ہے۔

تعلیمی نظام کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے:
تعلیمی ادروں کو بہت بنانے کیلئے تعلیم سب کیلئے کے قانون پر عمل در آمد لازمی کرنا ہوگا۔ نجی تعلیمی اداروں اور سرکاری تعلیمی اداروں کو یکساں نصاب پڑھانے کیلئے قانون سازی کی جائے۔ تعلیم پر جی -ڈی -پی کا دو فیصد خرچ کرنے کے بجائے ایک اچھا بجٹ مختص کی جائے۔والدین کو بھی چائیے کہ اپنے بچوں کو اسکول میں داخلہ دلوانے کے بعد نصاب اور ان کی تعلیم پر نظر رکھیں۔ اساتذہ طلبہ کی تعلیمی تربیت کے ساتھ اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں اور حکومت تعلیم کو مفت نہیں تو کم از کم سستا ضرور کرے۔
کون کہہ رہا؟ ماہر تعلیم، کوئی رپورٹ؟ کوئی حکومتی ادارہ؟ والدین، اساتذہ۔۔۔ کون؟؟

Comments

Popular posts from this blog

نياز اسٽيڊيم حيدرآباد Chhachhar group

Raheel Jarwar

ameet kolhi sindhi feature