Hifza Rajput I.R Private schools in Hyd

What is ur sub-topic?
Ur group No? This might create problem in final assessment
This is an article not report. Report is always reporting based, with primary data, source is quoted, and source are related people. plus personal observation.
In this case u should also refer some authentic reports, documents etc. 
pls check what spelling u wrote of ur name
Referred back, File till Oct 16

HIfza Rajput
2K17/MC/42
BS-PIII
Investigation Report

تعلیم بیچو مگر سستی 
تعارف:۔لغت کے اعتبار سے تعلیم کا مادہ علم (ع، ل، م) ہے۔ اس کے معنی ہیں ”کسی چیز کا اداراک حاصل کرنا“اس سے باب تفصیل میں تعلیم آتا ہے۔تعلیم کے معنی بار بار اور کثرت سے خبر دینے کے ہیں حتی کہ طالب علم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہو جا ئے۔علم کو بجا طور پر انسان کی تیسری آنکھ کہا جاتا ہے۔ تعلیم ہر انسان کو چاہے وہ امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے اور یہ انسان کا حق ہے جو کوئی نہیں چھین سکتا۔ قوموں کی ترقی میں ایک بنیادی جزو نظام و معیار تعلیم بھی ہے کہ تعلیمی ادارے وہ درسگاہیں ہیں جو نونہالوں سے نوجوانوں تک کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق صرف تعلیم ہی کی بدولت ہے  تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کیلئے ترقی کی ضامن ہے۔ یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسکول، کالج، یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اس کے ساتھ تعمیر و تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے۔ تعلیم کے حصول کے لئے قابل اساتذہ بھی بے حد ضروری ہیں جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔اساتد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز کے کر اپنے فرائض سے مبرا ہو جائے بلکہ استاد وہ ہے جو طلبہ و طالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور انہیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے اپنے شاگرد کو مالا مال کرتا ہے۔ جن اساتذہ نے اپنی اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے پورا کیا تو ان کے شاگرد آخر ی سانس تک ان کے احساس مند رہتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر آج کے حالات کاجائزہ لیا جائے تو محسوس ہو گا کہ پیشہ تدریس کو آلودہ کر دیا گیا ہے۔ محکمہ تعلیمات اور اسکول انتظامیہ اور معاشرہ بھی ان چار کتابوں پر قائع ہوکے کل تک علم کا مقصد تعمیر انسانی تھا اور آج پیشہ، نمبرات کمی دور اور نوکری پر ہے۔ 

حیدرآباد میں تعلیم کی تاریخ:۔ 
تقسیم سے قبل حیدرآباد کے باشندوں کے لئے تعلیم کا جو نظام تھا وہ اس قابل نہ تھا کہ ہندوستان کے نامور اداروں میں اس کا شمار ہوتا۔ کیوں کہ یہ شہر اندرون سندھ کو شہری آبادی سے جا ملاتا تھا۔ یہاں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی اشد ضرورت آ نکلی اور ایسے اداروں کا ہونا لازم ہو گیا۔ حیدرآباد کے تعلیمی ادارے کے بانی رائے ”بہادر پر بھداس آدوانی“ تھے۔ ان کا جنم 1866میں حیدرآباد میں ہوا۔ ان کا تعلق آڈوانی خاندان سے تھا جو حیدرآباد کے ہندو عاملوں سے تعلق رکھتا ہے۔ دیوان پربھداس ایک سیکولر سوچ رکھنے والے روشن خیال اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے مگر ان کو اس بات کی فکر تھی کہ حیدرآباد میں ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہونا چاہیے جس میں سندھ کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ انہوں نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دے کر تعلیم کے شعبے کو ترجیح دی انہوں نے 1897میں حیدرآباد شہر کے مرکز میں اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ اس دو منزلہ عمارت میں قائم کردہ ادارے کا نام ”نو دویالہ ہائی اسکول فار بوائز اینڈ گرلز“ رکھاگیا جو اس وقت سے لے کر آض تک قائم ہے۔پربھداس آڈوانی مذہبی امتیاز سے بالاتر تھے انہوں نے اس عمارت کا نقشہ بھی اسی طرح بنایا کہ اسے دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں وہ مذہبی رواداری پر یقین رکھتے تھے۔ پربھداس آڈوانی نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد نوویالہ میں بحیثیت استاد خدمات سرانجام دیں، وہ یہاں پر اخلاقیات کا مضمون پڑھاتے تھے۔انہوں نے نہ صرف اس ادارے کی بنیاد رکھی بلکہ سندھ میں نرسنگ کے شعبے اور کنڈر کارٹن (کے۔جی)کا تصور بھی انہوں نے متعارف کروایا۔اور پربھداس 73برس کی عمر میں اس دنیا سے رکصت ہو گئے اور انکی سمادھی نوویالہ کے احاطے میں ہی تعمیر کی گئی ہے۔
1947میں جب سندھ یونیورسٹی کو قائم کیا گیا تو پہلے کراچی میں تھی مگر 1951میں جب حیدرآباد کو سندھ کا دارلحکومت قرار دیا گیا تو یونیورسٹی آف سندھ کا کیمپس ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہاں قائم رہنے والا پہلا شعبہ فیکلٹی آف ایجوکیشن تھا جو اب بھی عمارت کے پچھلے احاطے میں قائم ہے۔ حیدرآباد شہر کے پھیلنے اور سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ایک نئے کیمپس کی ضرورت محسوس کی گئی تو 1955میں یونیورسٹی آف سندھ کو جامشورو میں دریائے سندھ کے کنارے منتقل کر دیا گیا اور نئے کیمپس کو علامہ آئی آئی قاضی کیمپس کے نام سے جب کہ پرانے کیمپس کو اہلیہ ایلسا قاضی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اس وقت ماڈل اسکول کے پرنسپل احسان اللہ راشدی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک قدیم عمارت ہے اور اس کو بحال رکھنا ہمارا فرض ہے مگر وپ اس بات پر بھی افسوس کرتے ہیں کہ اس ادارے کا نام اب نو ودیالہ نہیں بلکہ اسے تبدیل کر کے مشہور محقق اور اسکالر ڈاکٹر بخش خان بلوچ کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔
حیدرآباد میں تعلیم کا جنازہ کافی عرصے پہلے ہی نکل چکا ہے۔ رہی سہی کسر نجی اسکولوں نے نکال دی ہے جن کا مقصد صرف کمائی کرنا ہے۔

حیدرآباد میں تعلیم کا نظام:۔
تعلیم دینا اک مقدس پیشہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے گویا علم کو ہمارے دین میں اولیت حاصل ہے۔ لیکن حیدرآباد میں تعلیمی شعبے کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ برسات کے مینڈکوں کی طرح گلی کوچوں میں اسکول دکھائی دیتے ہیں کئی اسکولوں کا عالم تو یہ ہے کہ اسی گھر میں رہائش اور اسی گھر کے باہر انگلش میڈیم اسکولوں کا بورڈ لگا کر لوٹنے کا سامان پیدا کر لیا ہے۔ کیا دو چار مرلے پر مشتمل ایسے اسکول معیار ی تعلیمی ادارے بن سکتے ہیں جہاں بنیادی سہولتیں ہی ناپید ہوں۔ نشو ونما کیلئے تعلیم کے علاوہ کھیل کود کے لئے میدان کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ انہیں دور حاضر کے تقاضوں ہم آہنگ کرنے کے لئے کمپیوٹر لیب کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ انہیں مناسب روشنی اچھا ماحول درکار ہوتا ہے۔لیکن حیدرآبا دکے کچھ بیشتر پرائیوٹ اسکول ایسے ہیں کہ ابا پرنسپل، امی وائس پرنسپل اور بیٹے اسکول ماسٹر بن جاتے ہیں۔ پھر ایسی غیر معیاری کتابیں پڑھنے کے لئے تجویز کی جاتی ہیں کہ جن کی فروخت میں بھی انہیں کم از کم40فیصد حصہ ملتا ہے۔ کئی اسکول ایسے تنگ و تاریک گلی کوچوں میں قائم ہیں جہاں چھٹی کے وقت عام لوگوں کا گزرنا بھی بہت محال ہوتا ہے۔ اور جب ٹیچر ملازم رکھنے کا مرحلہ درپیش آتا ہے تو میٹرک ایف اے ٹیچر کو یہ اسکول میں دو ہزار سے تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں۔ اور یہ اسکول اخلاقی طور پر بے حد کمزور بنیاد پر کھڑے ہیں ان کے ذریعے کی جانی والی فیس کا کوئی مدلل نہیں ہے۔ من مانی فیس کے علاوہ وہ مختلف طریقوں سے دوسری کمائی بھی کرتے ہیں مثلاً کاپی، کتاب اور ڈریس کی مد میں ان کی جناب سے طالب علموں سے وصول کیی جانے والے معاوضے پچاس فیصد بھی درست نہیں ہیں تا ہم ایسے نجی تعلیمی سیکٹر کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ جو تعلیمی سہولیات کا جھانسہ دیکر والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 
پرائیوٹ اسکول کو قومی دھارے میں لانے یا تباہی کی طرف بڑھتا اقدام:۔
جب تک ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1972میں نجی تعلیمی اداروں کو قومیانے کا فیصلہ نہیں کیا تک تک پاکستان میں تعلیم اور زر کا اٹوٹ انگ قائم نہیں ہوا تھا۔ملک کی زیادہ تر آبادی سرکاری اسکولوں کے پھیلے ہوئے مربوط جال سے واقف تھی جہاں والدین بچوں کو لے جا کر داخل کروا دیتے اور بے فکر ہوجاتے ہیں۔ پھر ہوا یوں کہ جیسے جیسے سرکاری ارسطو تعلیم جیسے بورنگ شعبے سے اکتاتے چلے گئے توں توں خلا پُر کرنے کے لئے نجی شعبہ آگے آتا گیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں ہی نجی شعبے نے اس یقین دہانی کے بعد کچھ سرمایہ کاری کی جرأت کی کہ جو اسکول قومیا لیے گئے ان کے بعد اب کوئی نیا اسکول نہیں قومیا جائے گا۔ 
چنانچہ 1976 میں بیکن ہاؤس سسٹم قائم ہوا جب ضیا حکومت کے بھٹو صاحب کے ڈی نیشنلائزیشن کے عمل کو منسوخ کرنا شروع کیا اور کئی تعلیمی ادارے پرانے مالکان کو واپس کیے تو نجی شعبے کو مزید ڈھارس ہوئی اور 1978میں سٹی اسکول سسٹم اور 1982 میں فوجی ایجوکیشن سسٹم، 1985میں لاہور اسکول آف منیجمنٹ سائنسز اور پنجاب گروپ آ ف کالجز، 1988 میں روٹس اسکول سسٹم اور پھر دارِ ارقم، الائیڈ اسکولزکا قیام ہوا۔

Comments

Popular posts from this blog

نياز اسٽيڊيم حيدرآباد Chhachhar group

Raheel Jarwar

ameet kolhi sindhi feature